لاہور (ویب ڈیسک) ان دو دِنوں میں شاہ محمود قریشی کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ تحریک انصاف میں ان کے جہانگیر ترین مخالف بیانیہ کو مقبولیت ملنے والی نہیں،انہوں نے نظریاتی کارکنوں کا نام لے کر جو کہانی گھڑی وہ بری طرح پٹ گئی۔ پارٹی کے اندر سے کوئی ایک آواز بھی ان کی حمایت میں نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں اُٹھی،بلکہ صوبائی وزراء تک نے انہیں وارننگ دی کہ وہ جہانگیر ترین کی مخالفت سے باز رہیں۔ شاہ محمود قریشی کی یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ جہانگیر ترین کے کابینہ اجلاس میں بیٹھنے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا موقع ملتا ہے، اس لئے انہیں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) تو یہ بھی کہتی ہے کہ عمران خان نیب میں ہیلی کاپٹر کیس کی تفتیش تک وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ ہو جائیں۔ وہ تو یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ علیمہ خان کی جتنی پراپرٹی اور اکاؤنٹس نکلے ہیں، وہ سب عمران خان کے ہیں۔ کیا اس کا علاج بھی شاہ محمود قریشی یہی تجویز کریں گے کہ عمران خان عہدے سے مستعفی ہو جائیں، کیونکہ مسلم لیگ (ن) تنقید کرتی ہے۔ شاہ جی کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ صاف کیوں نہیں کہتے کہ جہانگیر ترین کی وجہ سے ان کی تحریک انصاف پر گرفت قائم نہیں ہو رہی۔آج بھی پارٹی کے اندر ہر طرف جہانگیر ترین کا ڈنکا بج رہا ہے۔ جیسے نوازشریف کا تا حیات نا اہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں ا یک انمٹ مقام ہے، اسی طرح جہانگیر ترین کی خدمات کو پارٹی کے چیئرمین سے لے کر کارکن تک تسلیم کرتے ہیں، سراہتے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ تو پارٹی کا اندرونی معاملہ تھا، شاہ محمود قریشی اسے باہر کیوں لے آئے۔ وہ اگر یہی باور کرانا چاہتے تھے کہ جہانگیر ترین کی کابینہ اجلاسوں پر شرکت پر مسلم لیگ (ن) شدید تنقید کرتی ہے، تو وہ کسی وقت بھی عمران خان سے یہ کہہ سکتے تھے۔ ان میں بہت زیادہ اخلاقی و سیاسی جرأت ہوتی تو وہ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے سامنے جہانگیر ترین کی شرکت پر انگلی اٹھاتے، اعتراض کرتے، مگر ایسا تو انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا اور ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر پریس کانفرنس میں جہانگیر ترین پر چڑھ دوڑے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مسلم لیگ (ن) کے سپوکس پرسن ہوں۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے جہانگیر ترین کی اجلاسوں پر شرکت پر اعتراض کر کے کسے مخاطب کیا، کیا ان کے مخاطب جہانگیر ترین تھے؟ نہیں وہ تو ہرگز نہیں ہو سکتے تو پھر لازماً ان کا ہدف وزیراعظم عمران خان تھے۔ کیا وزیراعظم کو انہیں ایسی پریس کانفرنس کر کے مشورہ دینا چاہئے تھا۔ اس سے تو صاف لگ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین کے خلاف تحریک انصاف میں اپنی لابی نہیں بنا سکے۔ انہیں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو ان کی تائید کر سکے۔ سو انہیں شاید فرسٹریشن میں یہ قدم اٹھانا پڑا، مگر یہ وار تو خالی گیا،بلکہ بیک فائر ہو گیا۔ ان کی بات پر پارٹی کے اندر سے سخت ردعمل آیا اور پرویز خٹک نے تو انہیں زبان بند رکھنے کی دھمکی بھی دیدی،وگرنہ بہت سے راز فاش کرنے کا اُلٹی میٹم بھی دیا۔ تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین کے لئے جو حمایت موجود ہے،اُس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ انہیں وزیراعظم عمران خان کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو اگر جہانگیر ترین کوئی بات کہیں گے تو وہ انکار نہیں کریں گے، جبکہ شاہ محمود قریشی کو تو عمران خان انتخابات کے فوراً بعد پنجاب کی چیف منسٹری دینے سے انکار کر چکے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین کارکنوں اور رہنماؤں کی بات سنتے ہیں، اُن کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کارکنوں کی سطح پر گروپ بندی کو بھی اہمیت نہیں دیتے، جبکہ شاہ محمود قریشی گروپ بندی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ملتان میں تحریک انصاف کو بھی انہوں نے اسی لئے دو دھڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جہانگیر ترین مختلف مسائل کو حل کرنے کے لئے ذاتی وسائل کا استعمال بھی کرتے ہیں، یہ وصف شاہ محمود قریشی میں ہر گز موجود نہیں۔کابینہ اجلاس میں شرکت کا تو ایک بہانہ ہے جو شاہ محمود قریشی کو مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے بھی ان دونوں شخصیات کی کبھی نہیں بنی۔ ملتان اور جنوبی پنجاب کی سیاست میں تحریک انصاف میں دھڑے بندی انہی دونوں کی وجہ سے ہے، تاہم جہانگیر ترین نے حکومت سازی کے دِنوں میں جس طرح تحریک انصاف کے لئے نمبر گیم چلائی اور ارکان اسمبلی کو بنی گالا لے جا کر پارٹی کی چادریں پہنواتے رہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ شاہ محمود قریشی تو شاید چند ایک ارکانِ اسمبلی ہی تحریک انصاف میں لا سکے۔البتہ جہانگیرترین نے بنی گالہ میں میلہ لگا دیا۔ شاہ محمود قریشی کو سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی،جب انہیں ملتان کے صوبائی حلقے217 میں سلمان نعیم نامی ایک نوجوان نے آزاد حیثیت میں شکست دی۔یہ نوجوان درحقیقت تحریک انصاف کا سرگرم کارکن تھا اور شاہ محمود قریشی نے اسے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا کہ انتخابات میں وہ217 سے حصہ لے گا، مگر عین موقع پر شاہ محمود قریشی نے اسے پیچھے دھکیل کر اس حلقے سے خود حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ضد میں آ کر سلمان نعیم نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا، سب واقفانِ حال کو خبر ہے کہ اُس کی سپورٹ جہانگیر ترین نے کی، اس حلقے سے شاہ محمود قریشی سلمان نعیم سے شکست کھا گئے اور ساتھ ہی اُن کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواب بھی چکنار چور ہو گئے۔جہانگیر ترین تو انتخابات سے پہلے ہی تحریک انصاف کے حلقوں میں یہ کہتے تھے کہ شاہ محمود قریشی میرے ہوتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے۔ جب سلمان نعیم آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہو گئے تو شاہ محمود قریشی کی پوری کوشش تھی کہ وہ تحریک انصاف میں شامل نہ ہو سکیں،لیکن جہانگیر ترین اُنہیں بنی گالا لے گئے، عمران خان سے ملوایا اور تحریک انصاف کا رکن بنا لیا۔ خود سلمان نعیم بتاتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی بنی گالا کے ایک ساتھ والے کمرے میں تھے،جب عمران خان اُن سے مزاحیہ اندازمیں پوچھ رہے تھے، یار سلمان یہ بتاؤ کہ تم نے شاہ محمود قریشی کو ہرایا کیسے؟وہ تو اسی حلقے سے ایم این اے کا انتخاب جیت چکے تھے۔ لگتا ہے تم نے اپنے حلقے کے عوام پر جادو کر رکھا ہے۔یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ ہیں۔وہ ملتان کے حوالے سے ہر فیصلہ جہانگیر ترین کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے والد فتح محمد بزدار کے جنازے میں بھی جہانگیر ترین ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں سے موجود تھے اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی بھی نمائندگی کی۔سو شاہ جی کے لئے یہ سب باتیں سوہانِ روح ہیں۔ وہ کپتان کے ہروقت ساتھ بھی ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ ان کی بہت زیادہ گڈبکس میں نہیں۔ اب یہ حرکت کرکے تو انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔جہانگیر ترین نے فوری طور پر یہ جواب دے کر کہ وہ جہاں بھی جاتے،وزیراعظم کی مرضی سے جاتے ہیں، مزید اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ شاہ محمود قریشی ان پر نہیں،بلکہ وزیراعظم عمران خان پر تنقید کر رہے تھے۔اصولاً یہ بات درست ہے کہ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے والے شخص کو کابینہ اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہئے، مگر یہ بات شاہ محمود قریشی کیسے کہہ سکتے ہیں؟جہانگیر ترین وہاں زبردستی تو نہیں گھس آتے،انہیں وزیراعظم عمران خان بلاتے ہیں۔ اگر شاہ جی کو ان کے آنے پر اعتراض ہے تو وہ از خود اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا کریں،مگر وہ ایسا بھی نہیں کرتے۔جہانگیر ترین کے جو حامی ہیں، وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جہانگیر ترین صرف زرعی شعبے میں بہتری کی تجاویز اور رہنمائی کے لئے بطور مبصر بلائے جاتے ہیں۔ ان کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا، لیکن چونکہ شاہ محمود قریشی ان کے سیاسی طور پر مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر پارٹی میں جہانگیر ترین کی اہمیت موجود رہی توان کا چراغ نہیں جل سکے گا، اِس لئے وہ جہانگیر ترین کو پارٹی سے دور کرنا چاہتے ہیں،حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق ایسا ممکن نہیں۔شاید جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ جہانگیر ترین پر کھل کر چڑھ دوڑے اور انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پارٹی چیئرمین اور وزیراعظم عمران کے فیصلے پر اعتراض کر کے وہ پارٹی کو فائدہ نہیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں ،شاہ محمود قریشی کے اضطراب کا یہی عالم رہا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے لئے دوسرے جاوید ہاشمی ثابت ہوں