اسلام آباد: بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ درگاہ شاہ نورانی میں ہونے والے بم دھماکے کی پہلے سے کوئی انٹیلی جنس رپورٹس موجود نہیں تھیں ۔
ڈان نیوز کے پروگرام ‘دوسرا رُخ’ میں گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ‘بلوچستان میں داعش موجود نہیں اور رواں سال ہونے والے تین بڑے حملوں میں وہی گروپ ملوث ہیں جو افغانستان سے اس طرح کی منظم کاروائیاں کررہے ہیں اور اپنے ہندوستانی ماسٹر مائنڈز کے کہنے پر خود ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے شدت پسند تنظیم داعش کا نام استمعال کرتے ہیں’۔
انھوں نے کہا کہ اگر ہم ماضی میں ہونے والے حملوں کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروپ اس طرح سے منظم انداز سے کارروائی کرتے ہیں جس سے یہ تاثر دیا جائے کہ داعش کا اس صوبے میں وجود ہے۔
اس سوال پر کہ کیا کوئٹہ میں سول ہستال اور پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملوں کا درگاہ شاہ نورانی پر حملے سے کسی قسم کا تعلق ہوسکتا ہے؟ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئیں گے، تب ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا، لیکن جو طریقہ کار تھا اس میں کچھ حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ ہفتہ 12 نومبر کی شام بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں زور دار بم دھماکے کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
مقامی افراد کے مطابق درگاہ شاہ نورانی میں ہفتے کے روز مغرب کے وقت دھمال کا آغاز ہوتا ہے جس میں سیکڑوں افراد شرکت کرتے ہیں اور دھماکا عین اُسی مقام پر ہوا جہاں دھمال جاری تھا۔
مزار کے منتظم نواز علی نے بتایا کہ ‘روزانہ سورج غروب ہونے کے وقت مزار پر دھمال ڈالا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے’۔
دوسری طرف غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق درگاہ شاہ نورانی میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
واضح رہے کہ ملک بھر سے خصوصاً کراچی اور حب سے یومیہ سیکڑوں کی تعداد میں زائرین درگاہ شاہ نورانی آتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
25 اکتوبر 2016 کو بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 61 اہلکار ہلاک اور 117 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل 8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلاء کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔