بالی ووڈ اداکار جب پہلی بار پاکستان آئے تو ان کی عمر بارہ برس تھی ،خواتین کے کپڑے پہن کر دوسروں کی نقالی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا
1980 ء میں میرتاج محمد خان اپنے چودہ سالہ بیٹے شاہ رخ خان کو اپنے ساتھ پاکستان لے کر آئے ۔ یہ ان کا دوسرا دورہ تھا ۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنی بہن کی وفات اور بعد میں اپنے بھائی کی وفات جن کی عرفیت ’’کنوارہ‘‘ تھی کیوں کہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی ، کے موقعوں پر پاکستان آنے کی اجازت طلب کی تھی ۔ سفر بہت دشوار تھا ۔ باپ اور بیٹے نے پہلے تو ریل گاڑی کے ذریعے امرتسر تک سفر کیا اور پھر ایک چھوٹے سے سرحدی قصبے اٹاری پہنچے ۔ یہ اس وقت انڈیا اور پاکستان کے درمیان سڑک کے راستے آمد و رفت کا واحد راستہ تھا ۔
میر اور شاہ رخ خان دونوں ممالک کے درمیان ایک راستے سے ہوتے ہوئے واہگہ پہنچے اور پھر وہاں سے پشاور کے لیے عازم سفر ہوئے اور میر کے آبائی گھر پہنچ گئے ۔ راستے میں میر اپنے بیٹے شاہ رخ خان کو اپنے بچپن کے قصے سناتے رہے اور یہ بھی بتایا کہ شاہ رخ ان کے بھائی ’’کنوارہ‘‘ سے کس قدر مشابہ ہے جس میں نقالی کا جوہر موجودہ تھا اور وہ عملی طور پر مذاق کیا کرتا تھا۔ جب میر پہلی دفعہ پاکستان آئے تو اس وقت شاہ رخ کی عمر بارہ سال تھی اور اس کی یادیں بہت خوشگوار تھیں۔ آبائی حویلی بہت ہی وسیع اورکشادہ تھی اور وہاں بے شمار افراد آباد تھے ۔
کئی نسلیں مشترکہ خاندان کی حیثیت سے رہائش پذیر تھیں۔ شاہ رخ خان کی اپنے کئی دور دراز کے رشتے داروں سے ملاقات ہوئی اوروہ اپنے ہم عمر عم زادوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہا۔ اس کے سب سے قریبی عم زاد منصور خان میر نے اپنی یادیں دہراتے ہوئے کہا کہ شاہ رخ خان زنانہ کپڑے پہن کر آنکھوں میں کاجل لگا کر اور بالوں میں پھول سجا کر اپنے افراد خانہ کے لیے تفریح اور دل بہلانے کا سامان مہیا کر تا تھ ا۔ شاہ رخ خان کی بہت سی خوبصورت خواتین عم زاد بھی تھیں۔ وہ اپنا سر ڈھکے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ وہ شاہ رخ کو گنجان بازاروں میں لے جاتیں۔ اس نے پاکستانی فلمیں بھی دیکھیں اور درہ خیبر کا سفر بھی کیا۔ لیکن جب دوسری دفعہ شاہ رخ خان اپنے والد کے ساتھ پاکستان آیا تو خاندان نے میر سے پاکستان میں موجود جائیداد سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ۔
پاکستان کے سفر سے چند ماہ بعد میر بیمار ہو گئے۔ میر کی زبان پر نمودار ہونے والا آبلہ جب کئی ماہ موجود رہا تو انہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے ’’منہ کے کینسر‘‘ کی تشخیص کی۔ میر کی زبان سے خون بہنے لگا تھا۔ وہ کھا بھی نہیں سکتے تھے اور جلد ہی وہ چلنے سے معذور ہو گئے۔ چھ ماہ کے اندر ہی یہ خوبصورت اور دلکش شخص ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا جو درد کے باعث خمیدہ ہو چلا تھا۔ حاجات ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے انہیں اٹھا کر لے جایا جاتا۔ ابتدا میں میر نے اپنی وصیت تحریر کی لیکن جب مرض نے ان کے بدن کو بالکل بے بس کر دیا تو ان کی تحریر میں بھی لرزش آگئی ۔
وہ اس قدر زیادہ کمزور ہو چکے تھے کہ پنسل بھی اٹھانے سے قاصر تھے۔ پھر شاہ رخ خان اور اس کے والد کے درمیان اشاروں کنائیوں میں بات ہونے لگی اور وہ پہیلیوں پر مشتمل ایک دل خراش اور افسوس ناک کھیل کھیلنے لگے۔ یہ ایک عجیب و غریب صورت حال تھی کہ جہاں ایک بیٹا حرکات و سکنات کے ذریعے اس شخص سے بات کر سکتا تھا جو سن سکتا تھا لیکن شاید دونوں خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے تھے۔ جوں جوں زندگی کی اس کہانی کا اختتام قریب نظر آ رہا تھا میر کا اشاروں میں بات کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ایک قلیل عرصے میں ہی میرکا بدن ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود شاہ رخ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اس کے والد زندہ نہیں رہیں گے ۔
جب ڈاکٹر اس کے والد کے منحنی بد ن کے طبی معائنے کے لیے اسے نوچتے کھسوٹتے تو اسے بڑا قلق ہوتا۔ ہسپتال کے جس کمرے میں میر کو رکھا گیا تھا وہ بدبو دار اور سڑاند سے بھر پور تھا۔ اس کمرے میں تین مزید مریض بھی موجود تھے اور ایک بستر کسی غیر متوقع مریض کے لیے خالی تھا۔ شاہ رخ خان کو یقین تھا کہ اس کے والد بہت ہی بہادری اور جرأت مند انسان ہیں جو اس بیماری کو بالآخر شکست سے دوچار کردیں گے۔ اپنی موت سے ایک دن قبل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میر واقعی صحت مند ہو رہے ہیں۔ انہیں ہسپتال سے واپس گھر بھیج دیا گیا تھا۔ گھر میں انہوںنے اپنی داڑھی بنائی اور کچھ آئس کریم کھائی۔ کیمیائی علاج کے باعث ان کے رخسار پر پڑے نیلے نشان مدھم ہونے لگے تھے اوروہ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر محسوس کررہے تھے۔ حتیٰ کہ جب میر کو دوبارہ بیماری کے حملے کے باعث فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا تو اس وقت شاہ رخ خان پر سکون اور مطمئن تھے کیونکہ اب تک وہ ہسپتال کے اس معمول سے واقف تھے۔ 19 ستمبر (1981) کو رات دو بجے ایک نرس نے افراد خانہ کو میر کی موت کی اطلاع دی۔ (کتاب ’’شاہ رخ خان‘‘ سے اقتباس)