counter easy hit

شہبازکی کراچی پرواز،SMW ہم آواز

مسلم لیگ پاکستان کی بانی جماعت ہے۔ بے لوث کارکنوں کی جماعت جسے نواز شریف نے پھر سے مقبول بنایا۔ آج مسلم لیگ نواز شریف کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ تین عشروں پر محیط کراچی میں لسانی اور بوری بند ہنگاموں نے کراچی کی شناخت اور مسلم لیگ سے اس کا رشتہ دھندلا دیا تھا۔ لگتا تھا کہ پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ کا یوپی اور سی پی کے مسلمانوں سے کوئی رشتہ ہی نہیں تھا۔ اک نسل بھول چکی تھی۔ ہاں مگر پنجابی اورہزارے وال کراچی میں مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھائے کھڑے تھے۔

کراچی کے حالات کیا بدلے۔ گویا سیاست کا میدان سب کے لئے کھل سا گیا۔ ہر سیاسی جماعت کراچی میں اپنے قدم جمانے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے۔ ایسے میں کراچی میں آباد مختلف علاقوں کے لوگوں کی وفاقی جماعتوں میں شمولیت بہرحال مضبوط وفاق کی علامت ہوگی۔

ویسے بھی اٹھارویں ترمیم کی صورت میں صوبوں کو مضبوط کرنے کے نام پر کمزور وفاق صرف علیحدگی پرستوں کے خوابوں کی تعبیر ہی ہوسکتا ہے۔ وہ بھی پاکستان جس میں وفاق ہی مختلف علاقوں اور زبانوں کے حامل افراد بستے ہیں۔ جہاں یوپی بہار سے لیکر کر گلگت تک کی مقامی ثقافت موجود ہے۔

ذہن ابھی کراچی کے مستقبل کے منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک ہی سوشل میڈیا ونگ (ایس ایم ڈبلیو) کے شیخ ریحان کی جانب سے مقامی ہوٹل میں مسلم لیگ کے کراچی کنونشن کی اطلاع ملی۔ سوچا چلیں فون پر تو بات ہوتی رہتی ہے۔ عملی سیاست میں مسلم لیگ کے سوشل میڈیا کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں اور اپنے قارئین تک سچ سچ خبر پہنچاتے ہیں۔

SMW group photoتپتی گرمی میں پہنچنا سہل تو نہ تھا مگر ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی کارکردگی پر بات کرتے رہے تو اب انہیں عملی طور پر بھی دیکھنے کا اچھا موقع تھا۔ سو جیسے ہی اندر قدم رکھے تو میرے سامنے جیدار بڈھا پٹواری کے ٹویٹر ہینڈل سے معروف شیخ ریحان موجود تھے۔ گلے کیا لگے ،لگا برسوں کی ملاقات ہے۔ نگاہ اٹھی تو خرم بھٹی صدر سوشل میڈیا ونگ سندھ دروازے کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلی ملاقات تھی صدیوں کی شناسائی لئے ساتھ تھی۔ پھر محفوظ نے ہندکومیں مجھے مخاطب کرتے ہوئے بڑھ کر گلے لگایا تو اپنائیت کا احساس ہوا۔

ان کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ہوئی اور پھر اگلی نشستوں کی جانب قدم بڑھائے۔ اسٹیج کے پاس موجود سوشل میڈیا ونگ کے لڑکے ڈپٹی ہیڈ عثمان جنجوعہ، شہیر جمال، چوہدری رضوان، عدنان الحق اور کئی ایسے جن کے نام بھی معلوم نہیں ہوسکے انتہائی محنت سے کام کرتے نظر آئے۔ اکثریت اپنی تصاویر نہیں لے رہی تھی۔ ان کی کارکردگی اس لحاظ سے بہتر لگی کہ وہ پورے پروگرام کو کور کر رہے تھے۔ ان میں لمبے قد کا ایک لڑکا جو مجھے ارمان آفریدی لگا ویڈیو بناتے ہوئے گانوں پرخود بھی جھومتا سا لگا۔

پروگرام دیکھ کر سوچا کہ کبھی مختلف سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جانب سے جلسہ کوریج کے حوالے سے نکات بھی ضرور لکھوں گا۔ یہ ایک نئی ڈویلپمنٹ ہے جو ہونے جا رہی ہے اور اس پر لکھا جانا ضروری ہے۔ اسے مربوط نظام کی صورت دینا لازمی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے نظام کے ساتھ لوگوں کی سوچ بھی بدل رہی ہے اورسیاسی لوگوں کا اس کے ساتھ چلے بغیر گزارا ممکن نہ ہوگا۔

شہباز شریف کی بطور صدر پہلی مرتبہ آمد تھی تو کارکنوں کی جانب سے خاص استقبال کا اہتمام نظر آیا۔ پھر سیاسی گانوں نے جو ماحول بنا رکھا تھا وہ بھی جذبات ابھارنے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا البتہ جیسا پنجاب میں سوشل میڈیا کے کنونشنوں میں جو جذبہ نظر آیا ہے وہ الگ ہی ہوتا ہے اور میں گانوں کا انتخاب بھی زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ اب دیکھیں مریم نواز اپنے والد کے ہمراہ کب کراچی میں سوشل میڈیا کنونشن سجاتی ہیں۔ اس کا بہرحال انتظار ہے۔

Raja Kashif Janjua with SMW headاب اتفاق کہیں کہ راؤ خلیل خالی سیٹ پر ساتھ آ بیٹھے۔ پتا لگا نواب شاہ سے آئے ہیں۔ ساتھ بیٹھے عمر قریشی نیو کراچی سے تشریف لائے تھے لہجے سے یوپی کے لگے۔ بات ہوئی تو کہنے لگے کہ والد بھارت سے آئے تھے اور مسلم لیگ سے محبت انہیں وراثت میں ملی۔ مزید کہا کہ قیادت کراچی پر توجہ دے تو ہم کراچی سے بھی بھرپورمحنت کر کے اسمبلی کی نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی کو میٹرو دینے کے بعد تو میاں صاحب سے کراچی کے لوگ انسیت محسوس کرتے ہیں اور انہیں کراچی کا نباض سمجھتے ہیں۔

شہباز شریف نے ایسی تقریر کی کہ لگا پہلی مرتبہ کراچی کو کسی نے اتنے پیار سے پکارا۔ بولے کراچی کو لاہور بنا دوں گا۔ مجمع سن کر جھوم اٹھا اور فضاء نعروں سے گونج اٹھی۔ کراچی میں نفروتوں کی تجارت بند ہوئی تو محبتوں کے رنگ جمانے شہبار آگئے۔ ایسے میں  ہوئی ان کی ہم آواز۔ انہوں نے اپنی کارکردگی کی بات کی۔ اچھا لگا مگر دوسری جماعتوں پر تیر چلانے کی ضرورت تو قطعی نہ تھی کہ کارکردگی ہی سب سے بہتر جواب تھا۔

تقریب ختم ہوئی تو سوچا ابھی تو مریم نواز نے قدم نہیں رکھے۔ جس دن وہ اور میاں صاحب بولے تو کارکنوں کی الفت دیدنی ہوگی لیکن ایسا کب ہوگا خرم بھٹی ہی بتا سکتے ہیں۔ ایک اور بات یوتھ ونگ کے صدر کو تو اسٹیج پر بلا لیا جاتا ہے، ایسے میں ہر سیاسی جماعت کو اب اپنے سوشل میڈیا ٹیم یا ونگ کے صدر کو بھی اسٹیج پر بٹھانا ہوگا کیونکہ زمانہ بدل رہا ہے جو آپ کے کارنامے آپ کی آواز، آپ کی بات ساری دنیا تک پہنچائے وہی اسٹیج پر نہ بیٹھے تو مجھے سے لکھاری کو اچھا نہیں لگتا اور سوشل میڈیا پر کام کرنے والے کارکنوں کو بھی اچھا نہیں لگتا ہوگا کہ ان کا صدر عام عوام میں پچھلی قطاروں میں بیٹھا ہو۔ تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا ٹیموں کے ہیڈ کو بھی اسٹیج پر اپنے ساتھ جگہ دیں اور تقریر کا بھی موقع دیں۔ سوچئے گا ضرور۔