تحریر: سید انور محمود
لولی پاپ کانام تو سناہوگا آپ نے اور مطلب بھی جانتے ہونگے، جب آپ مزے سے لولی پاپ چوس رہے ہوتے ہیں تو یقینا کبھی یہ نہیں سوچتے کہ لولی پاپ کو ختم کرنے کیلئے کتنی دفعہ چوسنا ضروری ہے مگر امریکی سائنسدانوں نے اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اورایک پیچیدہ تحقیق کے بعد بالآخر معلوم کرلیا ہے کہ ایک لولی پاپ کو ختم کرنے کیلئےاوسطا کتنی مرتبہ چوسنا پڑے گا۔ سائنسدانوں نے نہایت پیچیدہ ریاضیاتی ماڈل کے ذریعےمعلوم کیا ہے کہ لولی پاپ کو ختم کرنے کیلئے اوسطا ایک ہزارمرتبہ اُسکوچوسنا پڑتاہے۔
یوں سمجھ لیں کہ ایک بچہ رورہا ہے اور آپ اسکو بہلانا چاہتے ہیں تو اُسکو لولی پاپ دے دیتے ہیں، بچہ لولی پاپ چوسنے لگتا ہےاوریہ بھول جاتا ہے کہ وہ کیوں رویا تھا۔ ہمارئے ملک میں مسائل ہی مسائل ہیں اور عام آدمی پریشان ہیں ایسے میں ہمارئے سیاستدان عوام سے جھوٹے وعدئے کرتے ہیں اور عوام یہ سوچ کر سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرلیتے ہیں کہ جلدہی اُنکی مشکلات ختم ہوجاینگیں ۔ سیاستدانوں کے ان جھوٹے وعدوں کو آپ لولی پاپ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جھوٹے وعدئے یا لولی پاپ جو ہمارئے سیاستدان بڑی کثرت سے عوام میں تقسیم کرتے ہیں اور موجودہ وزیر اعظم تو چونکہ ایک تاجر بھی ہیں لہذا ابھی تک اُن سے بہترعوام کو لولی پاپ کوئی نہیں دئے سکا، آجکل وہ ملک سے دہشت گردی اور کراچی میں امن قائم کرنے کی لولی پاپ بغیر ناغہ بانٹ رہے ہیں۔
انتخابات سے پہلے نوازشریف، اُنکے بھائی شہباز شریف اور پوری مسلم لیگ(ن) کے لیڈر کورس کے انداز میں عوامکے مسائل کا رونا رو رہے تھے اور عوام کو تمام مسائل حل کرنے کے وعدئے کی لولی پاپ بانٹ رہے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مسائل کا انبار لگا ہواہے، دہشت گردی، کرپشن، توانائی کی کمی، امن و امان، اسٹریٹ کرائم،تعلیم پر عدم توجہ، ساٹھ فیصد سے زیادہ عوامغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں، بے شمار اور بھی دوسرئے مسائل ہیں جن میں ایک بڑا مسلئہ ہے غیر ملکی قرضوں کا۔
نواز شریف نے اپنے گذشتہ دور میں بھی کشکول توڑنےکا نعرہ لگایا تھا، مئی 2013ء کے انتخابات کےوقت اور اُسکے بعد بھی وہ کشکول توڑنے کا نعرہ لگاتے رہے، تازہ ترین تین سال میں کشکول توڑنے کا وعدہ وزیر اعظم نے چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونےکے وسیع ذخائر کی دریافت پر کیا ہے، جبکہ پنجاب کے وزیراعلی اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے قوم کو لولی پاپ دیتے ہوئے فرمایا کہ ملکی لوہے سے بنائی جانے والی اسٹیل مل قوم کی تقدیر بدل دے گی، شہبازشریف جذباتی انسان ہیں اس لیے بھول گے کہ اس سے پہلے کراچی میں قائم اسٹیل مل بھی قوم کی تقدیر تو کیا بدلتی کرپشن کی وجہ سےقوم پر ایک بوجھ بنی ہوئی ہے۔
چنیوٹ میں قدرتی معدنی وسائل کی دریافت بہت بڑی خوش خبری ہے، معدنی دولت سےمالامال صوبہ بلوچستان کے ریکو ڈک ذخائر میں12.3 ملین ٹن تانبا اور0.9 ملین اونس سونا ریت تلے دبا ہوا ہے جو ایران اور چلی میں واقع تانبے اور سونے کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ریکوڈک کا ذخیرہ حکومتی نااہلی کا شکار بن چکا ہے۔ کالاباغ میں درجہ دوم خام لوہا ہے تو سوات میں درجہ اول کے ذخائر ہیں، اسی طرح سندھ میں گیس اور آئل کے خزینے موجود ہیں۔ تھرمیں کوئلے کا انبار لگاہوا ہے، ہزاروں میگا واٹ بجلی پید اکرنے کے منصوبے کا افتتاح ہو چکا ہے، اس افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم کے علاو ہ سابق صدرآصف زردار ی بھی موجود تھے۔ ہمارےپاس سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے تقریبا تین گنا زیادہ توانائی موجود ہے جسے استعمال کرنا وقت کا تقاضہ ہے جو پاکستان کو آٹھ سو سال تک پچاس ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے۔
نواز شریف یہ تو کہہ رہےہیں کہ کشکول توڑ دینگے لیکن ہو اُسکے برعکس رہا ہے، الیکشن کے وقت نواز شریف کشکو ل توڑنے کا وعدہ کررہے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے نہ تو کشکول توڑا اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کی سہولت دی بلکہ عوام کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ نواز شریف کی حکومت میں اقتدار یا تو اُنکےخاندان میں بٹا ہوا ہے یا صرف چند قریبی دوستوںمیں، وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو اُنکےکے سمدھی بھی ہیں پیشے کے حساب سے ایک چیف اکاونٹنٹ ہیں، نواز شریف کے گذشتہ دور میں بھی وہ ایک ناکام وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، لیکن ان کی تعریف یہ ہے کہ وہ کشکول کا سائز بڑا کرنے میں ماہر ہیں۔
اس مرتبہ بھی نواز لیگ نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک طویل مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو مزید 6.6 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہوا ہے۔یہ قرضہ پہلے سے زیادہ شرح سود پر اور زیادہ سخت شرائط پر پاکستان کو دیا جا رہا ہے،جس میں اولین شرط ریاستی اخراجات اور ذمہ داریوں میں کمی ہے۔ یعنی حکومت عوام کو دیجانے والی سبسڈیز کا مکمل خاتمہ کرے اور ریاستی اداروں کی نجکاری کے عمل کو تیز ترکرے۔
سال 2008ء میں ہر پاکستانی شہری 37000 روپے کا مقروض تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس رقم میں 64000 روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے اور ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور میں 34 ارب ڈالر سے قرض کو بڑھاکر 66 ارب ڈالر پر لے آئی تھی، نوازحکومت نے اُس میں تیزی سے اضافہ کیا اورپاکستانی ریاست اس وقت تقریباََ 80 ارب ڈالرکےبیرونی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
اگر اندرونی قرضوں کو بھی شامل کیا جائے تو پاکستانی ریاست کے کل قرضے 120 ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتے ہیں۔کشکول توڑنے کا لولی پاپ دینےوالی مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس حساب سے کشکول کا سائز بڑا کرتی جارہی ہے لگتا ہے یہ بیرونی قرض کے ہندسے کو جلدہی 100 ارب ڈالرتک پہنچادے گی۔ گذشتہ سال صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا ابھی یہ حکومت تین سال اور قرضے کے لیے کشکول لیکر پھرئے گی، ساتھ ہی صدر کا کہناتھا کہ “قرضے ہمارے لئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں۔ اس افیون کی عادت ختم کرنے کےلئے مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے”۔کیا نصیب پایا ہے اس بدنصیب پاکستانی قوم نےکہ اُسکا صدر قوم کو بتاتا ہے ہم افیون کےعادی ہیں اور افیون کھانے والے کےلیے کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی افیون کھانا نہیں چھوڑتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی امید یا حکومت کا ایساکوئی اقتدام نظر آتا ہے کہ ہم امید کریں کہ کشکول ٹوٹ جائے گا، صرف کسی جلسے میں کھڑئےہوکر اعلان کرنے سے کشکول نہیں ٹوٹا کرتے۔ پاکستان میں سیاست کے نام پر چند خاندان حکومت کررہے ہیں جو اپنے مالی وسائل میں اضافے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں غرق رہتےہیں۔ یہ ہی حکمراں اس کشکول میں پڑی ہوئی بھیک کو اپنا حق سمجھ کر لوٹ لیتے ہیں اور عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے ان علی بابا چالیس چوروں نے پچاس ارب ڈالر سے زائد کی قومی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا رکھی ہے۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے،جن کی روزانہ کی آمدنی دو سو روپے یا اُس سے کم ہے۔ملک کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں کے بستر ان مریضوں سے بھرے رہتے ہیں جو یہ پانی استمال کرتے ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہے۔ غیرملکی قرضے یا بھیک ابھی تک پاکستانی عوام کی مشکلات بڑھاتے رہے ہیں، یہ عام آدمی کے کسی کام کے نہیں اور اس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں بھی مشکلات کا شکار ہونگیں ۔ پاکستان بنیادی طور پر جن عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے اُنکا ہمیشہ سے مطالبہ غریب کش اور امرا نواز پالیسیوںکا نفاذ رہا ہے۔
اگر حکمراں چاہیں تو اپنےاثاثے بڑھانے کی جگہ پاکستان اور پاکستانی عوام کےلیے سوچیں تو کشکول ٹوٹ سکتا ہے۔پاکستان بلاشبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس سے ملک میں نہ صرف معاشی انقلاب لایا جاسکتا ہے بلکہ کشکول بھی توڑا جاسکتا ہے، لیکن یہ اُس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب انفراسٹر کچر مضبوط ہو اورسرکاری اداروںمیں کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو، یہ کام صرف نیک نیتی اور سچی لگن سے ہی کیے جاسکتے ہیں۔اسکے لیے ملک کے تمام وسائل کو استمال کیا جائے، صرف ٹیکس کا نظام ٹھیک کرلیا جائےتو شاید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرروت نہ پڑئے مگر جہاں اسمبلی کے ممبران اور حکمران ہی ٹیکس ادا نہ کرتے ہوں وہاں یہ سب دیوانے کی بڑ ہے۔
ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں موجود معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھایں، کشکول کا خاتمہ کریں تاکہ ملک میں خوشحالی ہو اور ہر پاکستانی زندگی کا لطف اٹھا سکے۔نواز شریف اگر سیاسی نعرہ بازی کے طور پرکشکول توڑنے کی بات کررہے ہیں تو یہ بات وہ پہلے بھی کرچکے ہیں، اُن کا یہ نعرہ پہلےبھی پاکستانی عوام کےلیے ایک لولی پاپ تھا اور اب جب دوبارہ کشکول توڑنے کا کہہ رہےہیں تو بھی یہ عوام کےلیے ایک لولی پاپ ہےلیکن اب ایک فرق ہے کہ پہلے عوام اُنکے لولی پاپ کو چوسا کرتے تھے لیکن اب تھوک دیتےہیں کیونکہ عوام جان گئے ہیں کہ لولی پاپ سے کشکول نہیں ٹوٹا کرتے۔
تحریر : سید انور محمود