لاہور (ویب ڈیسک) کسی ناول میں پڑھا تھا: ایک کردار دوسرے کو طریقے سکھا رہا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو رشوت پیش کرنی ہو اور وہ نہ مان رہا ہو تو اسے بریف کیس کھول کر پیسے دکھائیں۔ وہ ڈگمگا جائے گا۔ مجھے وہ لائنیں پڑھ کر احساس ہوا تھا کہ
نامور کالم نگار رؤف کلاسرا روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہر فلم میں جب بھی ولن کسی ایماندار افسر کے گھر جاتا تھا تو وہ بریف کیس کیوں ساتھ لے جاتا اور اسے کھول کر ترتیب سے رکھی ہوئی نوٹوں کی گدیاں کیوں دکھاتا تھا؟ یہ انسانی نفسیات ہے‘ آپ ایک ارب روپے کا چیک دیں گے تو اسے بڑا نہیں لگے گا‘ ایک لاکھ روپے کیش دکھا دیں‘ اس کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ اب نیب کو جرأت نہیں ہو گی کہ وہ نواز شریف صاحب کو گرفتار کر لے کہ جناب آپ پر دو ارب روپے کمیشن کا الزام لگا ہے اور وہ الزام پاکستان کے کسی صحافی نے نہیں بلکہ امریکی اخبار نے لگایا ہے۔ اب شاید نیب والوں کی گھگی بندھ جائے گی‘ اور وہ وہی رویہ اختیار کریں گے‘ جو دو سال قبل پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں قمر زمان چوہدری نے پانامہ کے سکینڈل پر اختیار کیا تھا کہ جناب ہمارا پانامہ سے کیا لینا دینا۔ لیکن نیب کے سب بہادر جنگجو ہتھکڑیاں لے کر یونیورسٹی کے پروفیسرز اور استادوں کو پریڈ کرانے پہنچ گئے جو چھڑی کے سہارے بھی مشکل سے چل رہے تھے۔ پچھلے دنوں ایک صاحب اسمبلی کی بڑی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔
ایک بندے نے کہا: چوہدری نثار کے دور میں پی اے سی بہت اچھی تھی لیکن انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے اسی ایم این اے کو سب کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا‘ جس نے کھل کر پیرے سیٹل کیے اور ذہن میں رکھیں‘ موصوف اس امریکی فارمولے پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں فری کام کوئی نہیں ہوتا۔ ہر کسی کو ہر ڈیل اور آڈٹ پیروں میں اپنا حصہ لیتے دیکھ کر گائوں کا کالو یاد آگیا۔ گائوں میں جہاں دیگ پکنا شروع ہوتی‘ کالو جا کر بیٹھ جاتا۔ جونہی دیگ کا منہ کھلتا تو پوچھتا: اس میں کالو کا حصہ ہے؟ اگر کوئی چاول دے دیتا تو وہ چلا جاتا۔ انکار پر مٹھی میں ریت بھر کر چاولوں کی دیگ میں پھینک دیتا اور گالی دے کر کہتا: جس دیگ میں کالو کا حصہ نہیں ہوگا اس میں سے اور بھی کوئی نہیں کھائے گا۔ ہمارے سب حکمران گائوں کے کالو کی فلاسفی سے متاثر ہیں۔ ہر دیگ میں انہیں حصہ چاہیے اور جس دیگ میں ان کا حصہ نہیں… پھر وہاں اور بھی کوئی نہیں کھائے گا۔