تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
چندروز پہلے ایک عزیز کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی۔ وہ اپنی موٹر بائیک پرکالج جا رہاتھا کہ ایک کارکی ٹکر سے شدیدزخمی ہوکر جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میںپہنچ گیا ۔نام نہاداشرافیہ کی بگڑی ہوئی نسلِ نَوجب لمبی لمبی چمچماتی گاڑیوںمیں بیٹھتی ہے تواُسے باقی سب کیڑے مکوڑے ہی نظرآتے ہیں لیکن ہمارے موٹر سائیکل پرسوار”پہلوان” بھی کسی سے کم نہیں۔یہ موٹر سائیکل بھی عجب سواری ہے کہ بھاگتی توصرف دو پہیوںپہ مگررفتار کار جتنی اور ہمارے نوجوانوں میں خونِ گرم کی لہریں تازہ دَم ۔وہ تو فیروزپورروڈ جیسی مصروف ترین سڑک پربھی ”وَن ویلنگ” سے بازنہیں آتے اورنہر کی دورویہ سڑک توگویا اُن کا ”وَن ویلنگ ٹریک”۔ اُدھر ہمارے شہباز شریف ہیں کہ اُنہیں رات خواب میں کوئی نہ کوئی اَنڈر پاس یا اوور ہیڈ دکھائی دے دیتاہے اور وہ اپنے خواب کو حقیقت کاروپ دینے کے لیے مُنہ اندھیرے ہی ا نکل کھڑے ہوتے ہیں۔دراصل اُنہیں جلدی ہی بہت ہوتی ہے جس طرح عمران خاں کو وزیرِاعظم بننے کی۔
ہم اپنے خادمِ اعلیٰ کی انتھک محنتوں ،کوششوںاور کاوشوںکو سلام کرتے ہیںلیکن ساتھ ہی یہ عرض بھی کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے تھوڑی سی ”پلاننگ” بھی کرلیا کریں ۔وہ لمبی چوڑی ،حسین وجمیل سڑک تیارکرواتے ہیں اورجب سڑک بن کر”لشکارے” مارنے لگتی ہے تو اُنہیں اچانک خیال آتاہے کہ اوہو ! سڑک پراَنڈرپاس توبنایا ہی نہیں۔ چنانچہ سڑک بیچاری کی پھرسے شامت آجاتی ہے اوراِس شامت میں شریف شہری بھی برابرکے حصہ دارکہ اُنہیں ”ایویں خواہ مخوا”کئی کئی کلومیٹر کے چکرکاٹنے پڑتے ہیں ۔خادمِ اعلیٰ کوچونکہ لاہورسے ”عشق” ہی بہت ہے اِس لیے لاہوریوںکی توہر وقت شامت آئی رہتی ہے اوراب تو صورتِ حال یہ کہ گھروںسے نکلنے سے پہلے ایک دوسرے سے تصدیق کرنی پڑتی ہے کہ جس سڑک پر”ارادۂ سفر” ہے وہ خادمِ اعلیٰ کی” دست برد”سے بچی ہوئی ہے کہ نہیں۔
دروغ بَرگردنِ راوی ،کسی ”لال بجھکڑ” نماپیشین گو نے یہ دُرفتنی بھی چھوڑی ہے کہ خادمِ اعلیٰ کو خواب میں لاہورکی زمین کے نیچے بہتے تیل کی ”لہریں بہریں” نظر آئی ہیں اِس لیے وہ بہانے بہانے سے کھدائی کاکام جاری رکھے ہوئے ہیںاور وہ کسی بھی وقت تیل کی بوتل ہاتھ میں پکڑے ”پالیا ،پالیا” کے نعرے لگاتے سڑکوں پر بھاگتے نظرآ سکتے ہیں۔ ویسے ہمارا خیال اِس سے ذرامختلف ہے کیونکہ ہم بھی تھوڑے بہت ”قیافہ شناس” توہیں ۔ہمارے خیال میں چونکہ لاہور ایک قدیم شہر ہے اوریہ عرصۂ دراز تک حکمرانوں کا مرکز بھی رہا اِس لیے ممکن ہے کہ میاںصاحب کسی”خفیہ خزانے”کی تلاش میں ہوں تاکہ خزانہ ہاتھ آنے کی صورت میں وہ قوم کویہ خوشخبری سناسکیں کہ اب ہمیں آئی ایم ایف سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بہرحال جوکچھ بھی ہے لیکن یہ ضرورکہ میاں صاحب کسی نہ کسی ”چکر” میںضرورہیں ۔
بھئی ! بڑے لوگوںکی بڑی باتیں،ہم ٹھہرے چھوٹے لوگ ہماری عقل کی رسائی بھلاوہاں تک کیسے ہوسکتی ہے جہاںتک بڑے لوگوںکی ۔چھوٹے لوگوںکی چھوٹی عقل تویہ کہتی ہے کہ اگراوور ہیڈز اوراَنڈر پاسز پراربوں کھربوں صرف کرنے کی بجائے صرف اتنا کیا جاتا کہ رکشوںاورموٹر سائیکلوں کے لیے الگ راستہ متعین کردیا جاتا اوراُس پر موٹروے کی طرح سختی سے عمل درآمد بھی کروایاجاتا تو نہ ٹریفک کی روانی میںفرق آتا اورنہ ہی اتنے ایکسیڈنٹ ہوتے ۔اب تویہاں یہ صورتِ حال کہ موٹر سائیکل اوررکشے پوری سڑک پریوں پھیل کرچلتے ہیںکہ جیسے سڑک اُنہی کی وراثت ہو ۔اسی بنا پرجابجا حادثات کے دلدوز مناظربھی دیکھنے کوملتے ہیں۔
بات ہورہی تھی عزیز کے ایکسیڈنٹ کی لیکن ذہنی رَوکسی اور طرف بہ نکلی ۔خیرہم بھاگم بھاگ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے تویہ دیکھ کرہم پرحیرتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے کہ ہسپتال کی ایمرجنسی میںبھی ایک ایک بیڈپر دو ،دومریض لیٹے ہوئے حکمرانوںکی بے حسی پر ماتم کناںتھے ۔بے کَس وبے بس لواحقین پریشانی کے عالم میںشطربے مہار کی طرح اِِدھراُدھر بھاگتے نظرآئے ۔تب ہمیںآقاۖ کایہ فرمان یادآیا ”تُم میںسے ہرکوئی راعی (چرواہا) ہے جس سے روزِقیامت اُس کی بھیڑوں کاضرور حساب لیاجائے گا”۔ ہم سب حکمرانوںکی ”بھیڑیں” ہیں ،یہ سوچنا حکمرانوںکا کام کہ روزِقیامت وہ اپنی بھیڑوںکا کیسے حساب دے پائیںگے ۔
ہم خادمِ اعلیٰ کی انتھک محنتوںکا پہلے بھی اقرارکر چکے ، مکرر اقرارکرتے ہوئے کہتے ہیںکہ جتنی محنت وہ پنجاب کے شہروںکو پیرس یااستنبول بنانے میںصرف کررہے ہیں اگر اُ س محنت کا سوواں حصّہ بھی ہسپتالوں اورتعلیمی اداروںپر صرف کردیں تو اِن کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔لاہور کوپیرس میںڈھالنے کے مشن پرنکلے ہوئے خادمِ اعلیٰ سے سوال ہے کہ اپنے دِل پرہاتھ رکھ کرکہیے ،کیا آپ نے پیرس میںکہیں ایسا سکول یا ہسپتال بھی دیکھا جن سے ہماراقدم قدم پہ واسطہ پڑتارہتا ہے ۔ ہم میٹروبس کے خلاف نہ اورنج ٹرین کے بلکہ ہم تو انہی کالموںمیں اِن منصوبوںکی تعریف ہی کرتے ہیں لیکن مسٔلہ یہاں ”ترجیحات” کاہے اورخادمِ اعلیٰ کی اوّلین ترجیح نہ توہسپتال ہیںاور نہ ہی تعلیمی ادارے ۔کیاوہ سمجھتے ہیںکہ لیپ ٹاپ بانٹ دینے یا چند دانش سکول بنادینے سے نظامِ تعلیم بہترہو جائے گا؟۔
اگراُن کایہ خیال ہے توپھر دست بستہ عرض ہے کہ مخالفین تواِن اقدامات کو محض ایسے ”ہتھیار” سمجھتے ہیںجومیاں برادران اپنی ذاتی مشہوری کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔یہاںیہ یاددہانی ضروری کہ ہم سب کے دین کی اولین ترجیح علم ہے۔ حکمت کی عظیم الشان کتاب میںدرج کردیا گیاہے ”رَبّ کوجاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں”۔ آقاۖ کافرمان ہے ”ایک عالم ہزار عابدوںسے وقیع ہے”۔ حصولِ علم کے لیے جابجا احکاماتِ الٰہی اوراحادیثِ نبوی ۖدرج لیکن مختصر سے کالم میںاِس کی گنجائش کہاں۔۔۔۔ یہ توبہرحال سبھی جانتے ہیںکہ حصولِ علم کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے ۔اگر جسم صحت مندہو توہی دماغ صھت مند ہوگا اور تبھی انسان علم کی ہرشاخ سے مستفید ہوسکے گااِس لیے ہم تو حکمرانوںسے یہی گزارش کرسکتے ہیںکہ اپنی ترجیحات بدلیں۔پہلے قوم کوصحت مند جسم دیں اورپھر اعلیٰ تعلیم ،باقی سب کام توہوتے ہی رہیںگے ۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر