لاہور (ویب ڈیسک) الفاظ کا قحط پڑ گیا ہو جیسے۔ اعصاب شل اور دماغ ماؤف ہے۔ انسداد دہشتگردی کے ادارے نے معصوم بچوں کے سامنے نہتے اور بے بس خاندان کو گولیوں سے بھون کررکھ دیا۔زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔ہنسی خوشی شادی کی شرکت میں جانے والا یہ خاندان سڑک کنارے خون میں نہلادیا گیا۔ نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ہر آنکھ اشک باراور فضا سوگوار ہے۔عینی شاہدین اور بچوں کے بیانات اس کارروائی کو بربریت اور سفاکی کا بدترین نمونہ ثابت کرچکے ہیں‘جبکہ دوسری طرف ڈھٹائی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وزرا کی ”لمبی زبانیں‘‘اس بربریت کو انسداد دہشتگردی کی معمول کی کارروائی قرار دینے پر بضد رہیں۔بعدازاں چشم دید گواہی پر مبنی ویڈیو کلپ سامنے آنے پر اب پینترے بدلنے میں نہ ذرا ہچکچاہٹ ہے اور نہ کوئی شرمساری۔ قارئین حکومتی بے حسی اور ڈھٹائی کے چند نمونے آپ کی نذر ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار صاحب فرماتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کا شکار خاندان اگر بے گناہ ثابت ہوا تو حکومت معاوضہ ادا کرے گی۔اور پسماندہ بچوں کی کفالت کا خرچ بھی حکومت برداشت کرے گی۔وزیراطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ سی ٹی ڈی نے دہشتگردوں کے تعاقب میں یہ کارروائی کی ہے۔صوبائی وزیراطلاعات نے توجائے وقوعہ سے ہینڈ گرنیڈ‘ خودکش جیکٹس اور نہ جانے کیا کیا برآمد بھی کروا ڈالے۔وہ معصوم بچوں سے ہمدردی کے بجائے کہتے ہیںکہ”دہشتگردوں کے بھی توبچے ہوتے ہیں‘‘گویا وہ بچیاں دہشتگردوں کی اولاد ہیں۔بربریت کا نشانہ بننے والے خاندان پر ایک اور حکومتی احسان یہ کہ ان کے بچوں کا علاج معالجہ جنرل ہسپتال میں جاری ہے اور بچوں کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر بحال کرنے کے لیے بھی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔آفرین ہے ان حکمرانوں پر کہ اتنے بڑے سانحہ پر بھی سیاست کرتے شرم نہیں آتی۔کہانی در کہانی‘جھوٹ پر جھوٹ اور متضاد بیانات کے بعد صرف ایک ہی حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ یہ خاندان دہشتگردی کا نشانہ بن چکا ہے اور یہ دہشتگردی ]انسداد دہشتگردی کے ادارے نے کی ہے۔ خاور مانیکا کی بیٹی کو روکنے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پولیس پر کتنے برہم اور پریشان تھے کہ رات گئے ڈی پی او پاکپتن کو طلب کرلیا اور خاور مانیکا سے معافی مانگنے پر مجبور کرتے رہے اور ڈی پی او کے انکار پر اس کا تبادلہ بھی کرڈالا۔سی ڈی ڈی کی اس سفاکی پر انہوں نے کس کو طلب کیا؟ کس کا تبادلہ کیا؟خیر یہ تو ان کے لیول سے اوپر کی بات ہے‘وہ تو کسی سے جواب طلب کرنے کا اختیار بھی کہیں اور دے چکے ہیں۔ایک طرف وزیراعلیٰ بزدار ہیں ‘دوسری طرف گجر کاکھڑاک۔پنجاب بھر میں تقرری اور تبادلے ایسے کیے جاتے ہیں گویا”ٹینڈر‘‘ دیا جارہا ہے۔محکمہ پولیس ہو یا ضلعی انتظامیہ‘وزیراعلیٰ خودمختار فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔بدقسمتی سے موجودہ آئی جی امجد جاوید سلیمی تاریخ کے واحد پولیس سربراہ ہیں جو اپنی ٹیم کے بغیر کام کررہے ہیں۔ تقرری اور تبادلوں میں ان کی صوابدید اور چوائس کی حیثیت ثانوی بھی نہیں ہے۔ مہر ثبت ان کی ہوتی ہے فیصلہ اور انتخاب کہیں اور۔آفرین ہے آئی جی صاحب پر بھی جواپنے تمام اختیارات استعمال کرنے میں بھی بے اختیار ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آئی جی پنجاب اپنے کیرئیر کا آخری سال کسی بدمزگی کے بغیر گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ بھی بطور آئی جی پنجاب ہی ہو۔ان مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے وہ ”گجر نیٹ ورک‘‘کے آگے مزاحمت سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اور نتیجہ یہ کہ ”رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘کا تصور دم توڑ چکا ہے۔اور اب ”کلوز مین فار رائٹ جاب‘‘کے فارمولہ کے مطابق پنجاب پولیس میںتقرریاں اورتبادلے جاری ہیں۔ حکمرانوں کی” لمبی زبان‘‘ اور”عقل کے فقدان‘‘نے سی ٹی ڈی جیسے ادارے کی ساری کارکردگی اور ساکھ کو داؤ پر لگادیا۔بے مثال خدمات اور قربانیوں کے باوجود اس ادارے کی ساکھ پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوچکے ہیں۔اس افسوسناک واقعہ کو ریاست کی کارروائی قرار دینے کی ناکام کوشش کہاں کی عقل مندی ہے؟ ان نالائقوں اور نااہلوں سے کوئی پوچھے کہ چند افسران اور اہلکاروں کی ناقص حکمت عملی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا دفاع حکومتی سطح پر کیوں کیا جاتا رہا؟اس افسوسناک واقعہ کے فوری بعد ذمہ داران کی گرفتاری اور فوری مقدمہ درج کرکے متاثرہ خاندان سے اظہار ِہمدردی حکومت کی اولین ذمہ داری تھی۔سی ٹی ڈی کی اس کارروائی میں پورے محکمے کو ملوث کرنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ اس کی ذمہ داری صرف ان لوگوں تک محدود رکھی جاتی جن افسران کا یہ ایڈونچر تھا ۔غم وغصہ سے بھرے ہوئے سراپا احتجاج عوام کو یہ یقین دلایا جاتا کہ اس واقعہ کے ذمہ داران زیرحراست ہیں ان کیخلاف متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد حکومت پوری طاقت سے اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ لیکن یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔وزیر باتدبیروں نے انتہائی کوشش کے بعدسارے کا سارا سانحہ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا اور اب وضاحتوں اور توجیہات کا سلسلہ ہے کہ رکنے نہیں پارہا۔ان حکومتی چیمپئنز کی لمبی زبانوں کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت بشمول وزیراعظم عمران خان دفاعی پوزیشن پر آچکے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ آئی جی پنجاب کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور فرائض کا احساس کرنا ہوگا۔ مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے آئی جی پنجاب کو چاہیے کہ پورے صوبے کو ہلاکتوں اور آزمائش سے دوچار کرنے سے بہتر ہے کہ وہ حکمرانوں سے بات کریں کہ اگر وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں خود مختاری اور میرٹ پرفیصلوں کا اختیار دیں۔ اہداف اور نتائج کے حصول کے لیے آئی جی کے اختیارات بحال کرنا ہوں گے ۔اگر پولیس کو اسی طرح ٹھیکے پر چلانا ہے تو پھر کسی اور آئی جی کا بندوبست کرلیں ‘میں اس ٹھیکہ داری نظام میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔میرٹ پر تقرریاں کیے بغیر مطلوبہ نتائج اور اہداف کا حصول کیسے ممکن ہے؟ حالیہ کالموں میں پولیس کی کاکردگی اور گورننس کے حوالے سے کافی تفصیل سے بات ہوچکی ہے۔ شرمساری اور جوابدہی کا باعث بننے والے افسران آئی جی پنجاب کی ناکامی کا باعث بن رہے ہیں اور اس ناکامی میں حکمران بھی برابر کے شریک ہیں۔محکمہ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پرحالیہ تقریوں کاجائزہ لینا ہوگا اورکارکردگی کی بنیاد پر مشکل فیصلے بھی کرنے پڑیں گے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے سربراہ کو صوبائی دارلحکومت میں ایک خاتون کے وسیع و عریض گھر پر قبضہ کی شکایت پرسابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ڈی آئی جی آپریشنز کے عہدہ سے فارغ کیا تھا۔بعدا زاں سہولت کاروں کی مدد سے نا صرف شہباز شریف کو رام کرنے میں کامیاب ہوگئے‘ بلکہ ناراضگی بھی مینڈیٹ میں بدل گئی اور انہیں سی ٹی ڈی کا سربراہ بنا دیا گیا جو ایڈیشنل آئی جی کی سیٹ ہے ۔ اسی طرح پولیس کے دیگر اہم اداروں کی سربراہی پر بھی نظرثانی کی اشدضرورت ہے۔یاددہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ سی ٹی ڈی میں تعینات افسران کو معمول سے ہٹ کر ساٹھ فیصد زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے ‘جبکہ مراعات اور سہولیات کی تفصیلات الگ ہیں ۔ایسے میں اس قسم کا سانحہ سی ٹی ڈی کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل امتحان ہے اور یہ امتحان صرف ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی پاس کیا جاسکتا ہے۔اس میں کسی قسم کی جانبداری یا ”پیٹی بھائیوں‘‘ کی محبت انسداد دہشتگردی کے اس ادارے کی ساکھ کے لیے زہر قاتل ہوسکتی ہے۔انتہائی تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ خون کی ہولی کھیلنے والے زیر حراست ہیں اور مقدمہ16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔جے آئی ٹی کے پاس ایک دن رہ گیا ہے‘ اس کی رپورٹ بھی آہی جائے گی ۔ ماضی کے دیگر واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی وقت کی گرد میں دب جائے گا۔ پہلے کیا ہوا ہے جو اب ہوجائے گا؟ ماضی کے دیگر کیسوں کی طرح اس سانحہ پر بھی جے آئی ٹی پہ جے آئی ٹی بنے گی اور پھر یہ عدالتی ٹرائل شروع ہوگا اور وہی ہوگا جو ہوتا چلاآیا ہے۔ کہاں لے آئے ہو اے رہبرو تم ۔۔۔ یہاں تو کربلا ہی کربلا ہے