تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
1528 عیسوی میں اجودھیا ضلع فیض آباد اودھ کے مقام پر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے گورنر میر باقی کی نگرانی میں بابری مسجد تعمیر کی ۔اُس وقت وہاں ہندو بھی رہتے تھے اور مسلمان بھی، کسی جانب سے اس کو تنازع نہیں بنایا گیا۔ 15 جنوری 1885 میں سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھبیر داس نام کے ایک شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت چاہی۔ جس پر عدالت نے اجازت نہیں دی۔ بعد میں فرقہ وارانہ نظریہ کے حاملین نے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ مسجد کو قدرے نقصان پہنچایا اور ایک طویل عرصہ نہ صرف انتظار کیا بلکہ کوششوں کو جاری رکھا۔یہاں تک کہ 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی رات میں مسجد میں رام للا کی مورتیاں رکھ دیں گئیں۔
ایک دن بعد فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنڈت گووندولبھ پنت، چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام بابری مسجد سانحہ سے متعلق تار ارسال کیا۔جس میں حکومت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی اور تار میں صاف لکھا کہ 23دسمبر کی سرد اور تاریک رات میں ہندووا ہنی کے لوگوں نے بابری مسجد میں رام للّا کی مورتی رکھ کر حالات کشیدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔جس کے خلاف اقدامات نہایت ضروری ہے۔موجودہ مجسٹریٹ اور سپرنڈنٹ نے فوراًجائے واردات پہنچ کر صورتحال کو کنٹرول میں کیا۔انصاف کو پروان چڑھاتے ہوئے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے وزیر اعلیٰ اتر پردیش کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ نا انصافی ہر گز نہیں ہونی چاہیے،لیکن ضلع ڈسٹرکٹ نے وزیر اعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کی بجائے اپنے عہدے سے ہی استعفی دے دیا۔
1950 میں مسجد پر ناجائز قبضہ کے لیے دو مرتبہ برت رکھا گیا۔اس سے قبل 29 دسمبر 1949 میں ایک نئے ضلع مجسٹریٹ نے اس مسئلہ کو مزید فروغ نہ دے کر حالات کو جون کا توں برقرار رکھا، بابری مسجد کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا اور مسلمانوں پر مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی ساتھ ہی مسجد میں پوجا کرنے کے لیے چار بچاریوں کو بھی مقرر کردیا۔ 1950 میں مسجد میں تالا لگایا گیا وہیںم حدود پیمانے پر پوجا کا عمل بھی جاری رہا۔ 16 جنوری 1950 میں وکیل گوپال سنگھ کی درخواست پر سول جج نے فیصلہ سناتے ہوئے مسجد میں حسب سابق مورتیاں رکھی رہنے اور پوجا کرنے کے عمل کو جاری رکھنے کا حکم دیا۔ 17 اکتوبر 1984 میں رام جنم بھومی ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 1985 کے آغاز میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کی تحریک وشوہند وپریشد نے اپنے ہاتھ میں لی۔
25 جنوری 1986 میں وشوہندو پریشد کی جانب سے عدالت میں تالا کھولنے کی عرضی دائر کی گئی لیکن عدالت کسی طرح کا فیصلہ سنانے کی بجائے خاموش رہی۔ 31 جنوری 1986 میں ڈسٹرکٹ جج ایم کے پانڈے کی عدالت میں درخواست داخل کی گئی جس پر عدالت نے سرسری سماعت کے بعد یکم فروری 1986 کو تالا کھلواکر عام پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔یہاں ایک بڑا مرحلہ طے کیا گیا نیز دوسرے میں داخلہ کا آغاز ہوا۔دوسرے مرحلے میں بابری مسجد کو ہٹاکر رام للّا کے جائے مقام پر ایک بڑا مندر بنانے کی تحریک کا آغاز تھا۔ت حریک سے وابستہ افراد کو سمجھایا گیا کہ چونکہ عدالتوں میں انصاف کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے لہذا عوامی تحریک آغاز کیا جانا چاہیے۔
مسجد میں عام پوجاپاٹ کی اجازت حاصل ہوجانے سے ہندو احیاء پرستوں کے حوصلے بلند ہوچکے تھے ۔اب ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مسجد کو منہدم کرنے اور اس کی جگہ نیا مندر بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔وشوہندوپریشد کے سربراہ اشوک سنگھل ،جن کا چند روز قبل انتقال ہو چکا ہے،نے اعلان کیا کہ 9نومبر1989مندر کا شلانیاس (سنگِ بنیاد) ہوگا، ملک کی کسی سیاسی پارٹی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ ہمارے اس پروگرام میں رکاوٹ پیدا کر سکے۔طریقہ کار یہ طے ہوا کہ عام ہندؤں کو ہم نوا بنانے کے لیے 30 دسمبر 1989 سے ملک گیر شلاپوجن مہم شروع کی جائے گی ۔جس کے تحت ملک بھر کے پانچ لاکھ پچھتّر ہزار گاؤں میں ایک ایک شلا (اینٹ) بھیج کر اس کاپوجن کرایا جائے گا اور دیواستھان اکادشی (9نومبر) کے دن یہ ساری اینٹیں اجودھیا پہنچا دی جائیں گی ۔نیز اسی دن رام مندر کا شلانیاس کیا جائے گا۔دوران مہم ریاستی حکومتوں نیز مرکزی حکومت کا راست یابلاواسطہ جو تعاون رہا وہ سب پر عیاں ہے۔
پریشدشلا پوجن کے نام پر گاؤں گاؤں گھوم کر نفرت و تشدد کا زہر پھیلاتی رہی لیکن حکومتیں خاموش تماشہ بیں بنی رہیں۔ متعینہ تاریخ یعنی 9 نومبر کو وشوہندو پریشد کے ہاتھوں متنازعہ اراضی پر شلانیاس کی اجازت دے کر مسلمانوں کو آگاہ کیا گیاکہ بابری مسجد کے انہدام اور مندر کی تعمیر کا وقت قریب آگیا ہے۔دوسری جانب موجودہ وزیر داخلہ نے ایک طرف تو یہ اعلان کیا کہ متنازعہ جگہ پر شلانیاس کی اجازت نہیں دی جائے گی وہیں دوسری جانب اندرون خانہ وشوہندو پریشد سے ساز باز بھی جاری رہی۔ حکومت کی اس منافقانہ پالیسی نے فرقہ پرست تنظیموں کو اس قدر حوصلہ فراہم کیا کہ 23 جون 1990 ہری دوار میں ہندو مذہبی لیڈروں نے طے کیا کہ اگست سے اکتوبر تک پورے ملک میں جگہ جگہ جلوس نکالے جائیں، گاؤں گاؤں مندر کی تعمیر کے لئے والنٹیر جمع کئے جائیں، اور 30 اکتوبر کو مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے۔
فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آر، ایس ایس، بی جے پی، وشوہندوپریشد، بجرنگ دل اور ان کی ہمنوا تمام فرقہ پرست پارٹیاں میدان عمل میں نکل آئیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر لال کرشن ایڈوانی نے سومناتھ سے اجودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی، جس میں انتہائی اشتعال انگیز اور دل خراش تقریریں کی گئیں۔نتیجہ میں بڑودہ، بنگلور، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور یوپی کے بعض اضلاع میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ حکومت جس کی اولین و اہم ترین ذمہ داری اپنے شہریوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت ہے خود اپنی حفاظت کے بندوبست اور اپنی جان بچانے کی فکر میں مصروف رہی اور جارحیت کا عفریت ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم کر آگ و خون کا طوفان برپا کرتا رہا ۔یہاں تک کہ بڑی تعداد میں کارسیوک 30 اکتوبر 1990 اجودھیا پہنچ گئے۔اس موقع پر مسجد کو مسمار کرنے کی کوششیں کی گئیں،مسجد کے گنبد اور دیواروں کو مجروح کیا گیا۔لیکن وزیر اعلیٰ اترپردیش کے سخت رویہ نے انہیں مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔
جنتا دل کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ 5 دسمبر 1989 میں وزیر اعلیٰ بنے تو وہیں 24 جون 1991 میں برخاست ہو گئے۔ کل 566 دن کے دور حکومت کے بعد نئی حکومت میں عمل آئی۔ 24 جون 1991 میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔وزارت سازی کے بعد وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اپنے وزیروں کو ساتھ لے کر اجودھیا آئے اور بابری مسجد میں نصب مورتی کے پاس کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ”رام للّاہم آئیں گے مندر یہیں بنائیں گے”۔اس عہد و پیمان کے بعد حائل رکاوٹیں دور کرنے کی مہم کا آغاز ہوا۔مسجد سے ملحق موقوفہ متنازعہ اراضی کو اپنی تحویل میں لیا گیا، پھر اسے وشوہندو پرشید کے حوالہ کیا گیا، جس پرمستحکم بنیادوں کے ساتھ پختہ چبوترہ تیار ہوا۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات تھے کہ جائے مقام پر کسی قسم کی تعمیر نہ کی جائے،اس کے باوجود توہین عدالت کا ارتکاب کرتے ہوئے تعمیر ہوتی رہی ۔دوران مدت ہندئوں اور مسلمانوں کے مذاکرات بھی جاری رہے۔
یہاں تک کہ تیسرے دور کا آغاز ہونے ہی والا تھا کہ اچانک حیرتناک انداز میں وشوہندوپریشد نے یکطرفہ اعلان کیا کہ 6 دسمبر 1992 کو کارسیوا ہوگی۔کارسیوا کے اعلان ہوتے ہی فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آگئیں۔ بھاجپا کے سابق صدر ایڈوانی اور جوشی یاترا پر نکل پڑے، تخریب کار عناصر کارسیوک کے نام پر اجودھیا میں جمع ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک کا ماحول کشیدہ و سراسمیہ ہوگیا۔یہاں تک کہ مہم جوئی کا وہ آخری مرحلہ مکمل ہوا جس کے لیے 6 دسمبر 1992 کا دن طے کیا گیا تھا۔ اور بابری مسجد شہید ہو گئی!
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co