تحریر: شاہد شکیل
دنیا کا ہر انسان زندگی میں کئی بار فرسٹریشن یعنی مایوسی، ناکامی اور اداسی کا شکار ہوتا ہے کئی افراد وقتی طور پر حادثات کا شکار ہونے سے اس قدر مایوس اور دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ ہمت ہارنے کی صورت میں خود کشی جیسے اقدام سے بھی گریز نہیں کرتے حالانکہ زندگی میں خوشیاں اور سنگین معاملات ہوا کے جھونکے کی طرح آتے اور چلے جاتے ہیں جب ہم خوشیاں سب کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں تو سنگین معاملات میں بھی اپنے قریبی افراد سے صلاح مشورہ کرنے بعد معاملات کو حل کر سکتے ہیں لیکن کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شیئر کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر وہ ہمیں کھوکھلا کر دیتے ہیں کیوں؟۔ کیسے مایوسی اور ناکامی کی صورت حال سے نمٹا جا سکتا ہے ؟ معمولی سی بات مثلاً مطلوبہ ٹرین میں سوار نہ ہو سکے، چیف سے جھگڑا ہو گیا، کینٹین میں پسندیدہ ڈش دستیاب نہیں۔
دوستی میں دڑا ر پڑ گئی یا موجودہ دور میں ہر کوئی اپنی مانی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ سے مایوس اور دل برداشتہ ہو جاتے ہیں جبکہ یہ تمام باتیں نارمل ہیں ۔ روزمرہ زندگی میں ایسے حالات و واقعات سے تقریباً ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے اور ان حالات میں عام طور پر انسان فرسٹرشن میں مبتلا ہو جاتا ہے،شاید اسلئے کہ اسکی خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ ذہنی طور پر مایوسی اور ناکامی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے؟ میونخ کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ماریا کا کہنا ہے انسان کی خواہشات اور توقعات لا محدود ہیں اور تقریباً ہر انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی مثلاً وقت پر اپنی ڈیوٹی بھی جوائن کرنا چاہتا ہے لیکن مختلف وجوہات کے سبب وقت پر ڈیوٹی اٹینڈ نہیں کر سکتا اور فرسٹریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ فرسٹریشن سے نمٹنے کا گُر جانتے ہیں کیونکہ ایسے افراد کا بچپن سے ہی مایوسی اور ناکامی سے واسطہ رہا ہوتا ہے اور انہیں سکھایا جاتا ہے کہ مایوسی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایسے واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور زندگی کو بہتر بنانے کی تگ ودو کرنی چاہئے،بچپن سے ہی جو لوگ مایوسی اور ناکامی سے مقابلہ کرنے اور مات دینے کے گُر جانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور بالغ ہونے پر یہ الفاظ ان کیلئے بے معنی ہوتے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں ان الفاظ کے حصار میں قید ہو کر ہم اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کریں گے اور یہی افراد کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ مایوسی سے نمٹنا نہیں جانتے وہ ممکنہ طور پر زندگی کے ہر موڑ پر تکالیف اور ناکامیوں کا منہ دیکھتے ہیں۔
جو افراد زیادہ تر مایوسی اور ناکامیوں سے دوچار رہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان تکالیف سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے ان کے لئے شدید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ انسانی زندگی کیلئے اطمینان اور سکون نہایت اہم ہے اور اطمینان حاصل نہ ہونے کے سبب کئی طریقوں مثلاً کھانا بنانے ،شاپنگ کرنے کے بہانے سٹورز وغیرہ میں گھومنے سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں یا کئی لوگ الکوحل کا سہارا لینے کے ساتھ کثرت سے تمباکو نوشی کرتے یا سکون آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر چھٹکارہ حاصل ہوجاتا ہے لیکن جسمانی اور ذہنی طور پر بالکل ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر ماریا کا کہنا ہے جزوی طور پر بے چینی یا عدم اطمینان سے فرار حاصل کرنے میں یہ کونزیوم کار آمد ثابت ہوتا ہے لیکن ایسے افراد جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں جو دیگر افراد کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ غیر یقینی صورت حال میں حالات کے پیش نظر دیگر افراد کو طعنے دیتے اور خود کو کوستے ہیں۔
یہ افراد شاید نہیں جانتے کہ غیر مطمئن رہنا ،بے چینی یا عدم اطمینان زندگی کا حصہ اور ایک نارمل عمل ہے اور تقریباً سب انسان اس میں مبتلا رہتے ہیںکوئی کم تو کوئی زیادہ،دنیا کا کوئی انسان نہ تو مکمل طور پر خوش ہے اور نہ مطمئن اور یہ نارمل بات ہے۔مایوسی سے چھٹکارہ پانے کیلئے تفریح یا کھیل اہم ہے،جاگنگ کرنے ، دوستوں سے ملاقات اور انہیں اپنے حالات سے آگاہ کرنے سے ذہنی بوجھ میں کافی تبدیلی آتی ہے،ڈاکٹر ماریا کا کہنا ہے جو افراد مسلسل مایوسی اور ناکامی کا شکار رہتے ہیں اور باہر نہیں نکل سکتے وہ بہت جلد سنگین بیماریوں میں مثلاً برن آؤٹ سینڈروم یا طویل مدت تک ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں دوسری جانب مایوسی کو قبول کرنا بھی اہم ہے۔
اس سے گریز نہیں کیا جاسکتا اور ایسے حالات سے نمٹنے سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اپنی تمام قوت کو بروئے کار لا کر انسان سوچ سکتا ہے کہ نئے عہد و پیمان یا آئیڈیئے کے مطابق نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور اس کیلئے محض حکمت عملی کافی نہیں ہوتی کیونکہ جب تک مایوسی کے حصار سے نہیں نکلا جائے گا دماغی خلیات سوچنے کی قوت سلب کرتے رہیں گے اور کوئی نیا آئیڈیا جنم نہیں لے گا۔ہر انسان مشکل حالات یا مسائل کو باآسانی حل نہیں کر سکتا وہ چاہے خاندانی مسائل ہو ں یا روزگار سے تعلق ہو لیکن بہتر علاج یہ ہی ہے کہ گہرائی سے سوچا جائے اور دیگر افراد سے بات چیت ،خوشگوار ماحول ، اور خوداعتمادی پیدا کرنے سے باآسانی تمام مسائل حل کئے جاسکتے ہیں لیکن یہاں اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر اچھی یا بری بات میں ہاں میں ہاں ملائی جائے کیونکہ عام طور پر معاملات کو وقتی طور پر ختم کرنے کیلئے سب ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن طویل مدت تک قائم نہیں رہ سکتے ۔مایوسی کو ہنسی مذاق ،میل جول اور رابطوں کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف موضوعات پر بات چیت کرنے سے کمی واقع ہوتی ہے۔
تحریر: شاہد شکیل