تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
حکمت کی عظیم الشان کتاب میں یہ درج کردیا گیا ”تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہوجسے لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو ،بدی سے روکتے ہواور اللہ پرایمان رکھتے ہو”(آل عمران)۔ آقا کے فرمان کے مطابق روزِ قیامت پہلا سوال یہی ہوگا کہ تمہاری جوانی کن مصروفیات میں گزری ۔کیا راگ رنگ ،موسیقی ،ناچ گانے او رلہو ولعب میں یا پھرتم نے کوئی بلند نصب العین اختیار کیا ۔۔۔۔ میرے آقاۖ کا یہ فرمان بھی ہے کہ روزِ قیامت جب سب لوگ میدانِ محشر میں حیران وپریشان ہوں گے ۔گرمی ،دھوپ کی تمازت اور پسینے کی وجہ سے سب کابرا حال ہوگا ،اُس وقت اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے تلے سات قسم کے لوگوں کو جگہ دے گا۔جبکہ اللہ کے عرش کے سائے کے علاوہ اس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ،تواِن سات لوگوں میں وہ نوجوان بھی ہوگا جوجوانی میں اللہ کو یاد کرتا تھا اوراپنے گناہوں پر روتا تھا ۔۔۔۔
ویلنٹائن ڈے اور اِس قسم کی بے حیائی پھیلانے والی رسومات میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لینے والے ”نوجواں مسلم ”سے سوال ہے کہ روزِقیامت جب نفسانفسی کاعالم ہوگا ،کوئی معافی قابلِ قبول ہوگی نہ سفارش ،تب وہ ربّ ِلَم یَزل کوکیا مُنہ دکھائے گا؟۔ ہمارایہ حسنِ ظَن کہ نسلِ نَو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے اِس حدتک ضرورآگاہ ہوگی کہ آئینِ پاکستان میں اللہ تعالےٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ہمیں یہ بھی یقین کہ آقاۖ کی محبت کاٹھاٹیں مارتا سمندر ہردل میں موجزن ،پھر ویلنٹائن جیسا بے حیائی کادِن منانے کاکیا مقصد؟۔
ہم پہلے بھی کسی کالم میں عرض کر چکے” معلوم تاریخ سے تو یہی پتہ چلتاہے کہ ابتداء میں معاشرے کا وجود تک نہیں تھا اور اقدار سے بے نیاز برہنہ انسانوں اور حیوانوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔ہزاروں سالوں کی گردشِ لیل و نہار کے بعد معاشرہ وجود میں آیا ، مرد اور عورت کا فرق واضح ہوا اور نسوانی حیا کو جسم ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر حضرتِ انسان نے ” یو ٹَرن” لیا اور آج یہ عالم ہے کہ یورپ و امریکہ کے سمندری ساحلوں پر ہمیں اُسی دَور کی جھلک نظر آتی ہے جسے ہم ”پتھر کا زمانہ” کہتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا روشن خیالی کے نام پر منایا جانے والاویلنٹائن ڈے ہمیں ترقی کی جانب لے جا رہا ہے یا تنزلی کی؟”۔ ماڈرن اشرافیہ ،جوہمیں رجعت پسند جیسے القابات سے نوازتی ہے ،سے بھی ہمارا سوال ہے کہ رجعت پسند کون ہے؟۔
وہ جو پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ رہاہے یاوہ جو دینِ مبیں کے عین مطابق شرم وحیا کا دامن تھامے بیٹھا ہے؟۔ وہ جو حیوانوں کی سی زندگی گزارنے کو ”شخصی آزادی” کانام دیتاہے یاپھر وہ جولازمۂ انسانیت کے سارے تقاضے پورے کرتاہے؟۔ وہ جو مادرپدر آزادی کوہی معراجِ انسانیت سمجھتاہے یاپھر وہ جس کی آزادی ربّ ِ لَم یزل کی بنائی گئی حدودوقیود کے اندرہے ۔ہمارایہ بھی سوال ہے کہ ادیانِ عالم میںسے کون سادین ہے جوایسی بے حیائی کی اجازت دیتاہے؟۔ کیاتورات ،زبور ،انجیل میںاِس کی اجازت ہے یاقُرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں؟۔ یہی نہیں بلکہ کیاکوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں اِس قسم کی حیاباختہ رسومات کی اجازت ہے؟۔ اگریہ سب کچھ انسانی وحشتوںکا شاخسانہ ہے توپھر ہم ایسی رسومات سے بیزاری کااظہار کیوں نہیں کرتے؟۔ ابھی دو دِن پہلے ایک معروف ٹی وی چینل پربیٹھے بزرجمہر ویلنٹائن ڈے کے حق میں اپنے دلائل کی تان توڑتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہرکسی کواِس امرکا حق ملناچاہیے کہ اگروہ ویلنٹائن ڈے مناناچاہتا ہے توضرورمنائے البتہ کسی کونہ تویہ دن منانے سے روکاجائے اورنہ ہی کسی کویہ دن منانے کے لیے مجبورکیا جائے۔
اِن ماڈرن بزرجمہروں سے سوال ہے کہ کیاہمارا دین اِس کی اجازت دیتاہے؟۔ اگروہ دینِ اسلام کے کسی بھی حوالے سے یہ ثابت کردیں توہم بھی ایسی بے حیائی پھیلانے والی تقریبات میں حصّہ لیناشروع کر دیں گے لیکن اگروہ ثابت نہ کرسکیں (تحقیق کہ وہ ہرگزثابت نہیں کر سکتے) توپھر انہیں یہاں سے ہجرت کرجانی چاہیے کیونکہ اِس ملک کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اورقراردادِ مقاصد اِس کاجزوِ لاینفک ۔مسلمانوں کے علاوہ یہاں ہندو ،عیسائی اورسکھ بھی بستے ہیںجن کوارضِ وطن میںوہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو ۔اگروہ اپنی مذہبی کتابوںسے یہ ثابت کردیں کہ اُن کادین اِس کی اجازت دیتاہے توپھر ہمیںکوئی اعتراض نہ ہوگا لیکن وہ بھی خوب جانتے ہیںکہ یہ انسانوںکی بنائی ہوئی رسمیںہیں جن کااُن کے دین سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔
ویلنٹائن ڈے جیسی” رسمِ بَد” کے بارے میں ہم نے بچپن میں سنا ،دیکھانہ جوانی میں۔ نام نہاد اشرافیہ سات پردوں میں چھپ کریہ دِن مناتی ہوتو الگ بات ہے لیکن کھلم کھلا ”ویلنٹائن ڈے” منانے کارواج امریکہ کے ذہنی غلام پرویز مشرف کے دَور میں شروع ہوا اوربے حیائی کے مناظر سرِعام ۔2000ء سے لے کر اب تک اِس دن کو پورے اہتمام سے ایسے منایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مقدس فریضہ ہو ۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیںکہ ارضِ وطن کی غالب اکثریت کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ” ویلنٹائن ” کس بَلا کا نام ہے۔ہمیں یہ بھی یقین کہ اگرمعلوم ہوجائے تویہ دن منانے والوںکی پیشانیاں عرقِ ندامت سے تَرہو جائیں لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ہم اِس دن کی تاریخ جانناہی نہیں چاہتے کیونکہ ہمیں وہ سارے تہوار اچھے لگتے ہیں جِن کا اسلامی معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
14 فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو انسائکلوپیڈیا بک آف نالج میں ” محبوبوں کے لیے خاص دن” لکھا گیا ہے ۔روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کے عشق میں گرفتار ہوا ۔چونکہ عیسائیت میں راہبہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں تھا اِس لیے ویلنٹائن نے ایک کہانی گھڑی اور اپنی محبوبہ کو یہ بتلایا کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگر 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کر لیے جائیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ویلنٹائن کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں نے کلیسا کی روایت کی دھجیاں اُڑا دیں ۔اِس گناہ کا پتہ چلنے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو ”شہیدِ محبت ” کے درجے پر فائز کر دیا ۔
ویلنٹائن ڈے کو بھارت میں بھی انتہائی براسمجھا جاتاہے اور ہندوانہ تہذیب کے حق میں زہرِ ہلاہل۔ عیسائی پادری بھی اِس دن کو مکروہ خیال کرتے ہیں ۔بنکاک میں ایک پادری نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ایسی دکانوں کو نذرِآتش کر دیا جہاں ویلنٹائن ڈے کے کارڈز اور پھولوں کے گلدستے فروخت ہو رہے تھے ۔پاکستان میں اِس ”یومِ اوباشی” کایہ عالم کہ اب تعلیمی ادارے بھی اِس سے محفوظ نہیں۔ غلامانِ مغرب کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں اِس دن فائیوسٹار ہوٹلوں میں ”ویلنٹائن ڈنر” کرتے ، موبائل فونوں پر محبت کے پیغامات بھیجتے ، ا پنے محبوب کو ویلنٹائن کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرتے ہیں۔
شہروں میں طلباء اور طالبات کی ٹولیاں دن بھر پھول خریدتی نظر آتی ہیں۔اِس دن گلاب کے ایک پھول کی قیمت سَوروپے سے بھی بڑھ جاتی ہے ۔جونہی 14 فروری کا سورج طلوع ہوتا ہے ہمارے نیوزاور تفریحی چینلز پر محبت کے پیغامات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ایسے لگتاہے کہ جیسے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی یورپ کے حیا باختہ اور جنس پرست معاشرے کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتا ہو۔ کیونکہ نیوزچینل کویہ توفیق کبھی نہیں ہوئی کہ وہ ویلنٹائن ڈے کی جگہ ”یومِ حیا” مناسکے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر