تحریر: روہیل اکبر
وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کو اسمبلی میں منت سماجت کرکے بلوا لیا جب اجلاس شروع ہوا تو انہوں نے دھرنے کا غصہ اتارنے کے لیے پی ٹی آئی کے اراکین کو کھری کھری سنائی اور بڑے واضح انداز میں پی ٹی آئی کے اراکین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شرم اور حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے شرم اور حیا کیا ہوتی ہے اس بارے میں ہمارے سیاستدانوں کو آج تک کچھ معلوم ہی نہیں ہوسکاکہ یہ کس بلا کا نام ہے جن قوموں اور انکے حکمرانوں میں شرم اور حیا ہوتی ہے وہ قومیں آج دنیا پر راج کر رہی ہیں۔
ہم اپنی شرم اور حیا کو ختم کرکے آج بھی انکے تسلط سے آزاد نہیں ہوئے ہم نے اپنی شرم وحیا کو اپنے سے الگ کرکے بے غیرتی کو اتنا پرموٹ کردیا ہے کہ اب اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کو واپس حاصل کرنے کے لیے بھی ایک لمبا عرصہ درکار ہے ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنی چوری اور فراڈ پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں ایماندار لوگوں کو رگیدا جاتا ہے انکی عزت نفس کو مجروح کرکے ہم فخر محسوس کرتے ہیں کمیشن مافیا نے اس حد تک اپنے پنجے ہمارے ضمیر پر گاڑ رکھے ہیں جن سے بغیر زخمی ہوئی جان چھڑوانا ناممکن ہے ہمارے خواجہ آصف صاحب نے شر م وحیا کی جو بات کی اسکا مقصد تھا کہ اسمبلی کے باہر بیٹھ کر بڑے شوق سے گالیاں دینے والے اسی اسمبلی میں بلاآخر واپس آ گئے۔
جبکہ ہمارے حکومتی وزیرخواجہ سعد رفیق کو نااہل قراردیا گیا تو وہ عدالت سے سٹے آرڈر لے آئے اور دوبارہ پھر وزارت کے مزے لوٹنے لگے اب سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق بھی نااہل ہوگئے مگر امید ہے وہ بھی عدالت سے سٹے آرڈر حاصل کرکے دوبارہ پھر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے ہمارے کمیشن خور افسران اور شرم وحیا کے پیکر یہ سیاستدان ہماری رگوں سے رہی سہی شرم وحیا بھی نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اب ہمارے پاس اپنے کام سے محبت کرنے والے مخلص سیاستدان ہیں اور نہ ہی مٹی سے وفا کرنے والے افسران موجود ہیں جن کو ہم کہہ سکیں کہ یہ شرم وحیا کا پیکر ہیں اگر میں یہی سوال اپنے آپ سے کروں کہ کیا پاکستان میں اس وقت کوئی شرم وحیا کے معیار پر پورا تارتا ہے تو میرا جواب نہ میں ہوگا کیونکہ جہاں کلرک سے لیکر وزرا تک کے پاؤں کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہوں ایک نالی سے لیکر میٹرو منصوبوں تک کمیشن کی بولیاں لگائی جاتی ہوں ایک فروٹ کے ٹھیلے والے سے لیکر بڑے سے بڑے بیوپاری تک لوٹ مار میں مصروف ہوں تو وہاں شرم حیا کہا ں زندہ ہوگی شرم وحیا ان میں ہوتی ہے جو اپنے کام سے مخلص ہوں جو وعدہ کرلیا جائے اس پر عمل کرنا انکی زندگی کا حصہ بن جائے جو اپنے وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ نہیں پہنچا سکتا اس کا شرم حیا کے ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے پاکستان میں پہلے پانچ روپے کا نوٹ چلتا تھا جو اب بند ہوچکا ہے۔
اس نوٹ کے پیچھے کھوجک ٹنل کی ایک تصویر بنی ہوتی تھی یہ کھوجک ٹنل اس وقت برطانوی حکومت نے شروع کی جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا سورج غروب ہوگیاایک طرف دہلی کے لال قلعہ میں بہادر شاہ ظفر کو ناشتے کی ٹرے میں اسی کے دو بیٹوں کا قلم کیا ہوا سر پیش کیا جارہا تھا تو دوسری طرف برطانوی حکومت جلد از جلد اپنی قوت میں اضافہ کے لیے ریلوے لائن کا ٹریک بچھا کر جدید مواصلاتی نظام کے زریعے اپنی فوجوں کو ہندوستان پہنچانا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے انہوں کوئٹہ سے 113کلومیٹر دور پہاڑوں کے درمیان ایک ریلوے ٹریک بچھانے کا فیصلہ کیا انجینئر کو بلوایا گیا۔
اس نے جگہ دیکھی اور اپنے پیشہ وارانہ تجربے کی بنا پر اس ٹنل کو شروع کرنے سے اختتام تک کا وقت بتا دیا انجینئر کا کہنا تھا کہ 3سال 4ماہ اور 21روز بعد 5ستمبر 1891ء کو دونوں طرف سے کام کرنیوالے مزدور پہاڑ کو کھودتے کھودتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونگے اور ٹنل کا کام مکمل ہو جائیگا1881ء میں شروع ہونے والے اس کام میں موسمی تبدیلیوں کے باعث مزدوروں میں وبا پھیل گئی کچھ مر گئے کچھ کے کام کی رفتار سست ہوگئی مگر کام پھر بھی جاری رہا اورآخر کار 5ستمبر 1891ء کو وعدے کی تکمیل کا وقت آگیا شانزلہ اور شیلا باغ کے مقام پر بننے والی ٹنل آج مکمل ہو جانا تھی اور پٹری کے آخری بولٹ لگا دیے جانے تھے مگر مقررہ وقت پر ایسا نہ ہو سکا۔
انجینئر نے اپنے دیے ہوئے وقت پر کام مکمل نہ ہونے پر ندامت اور شرمندگی محسوس کی وہ پراجیکٹ کا انچارچ انجینئر تھا خاموشی سے باہر نکلا آہستہ آہستہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا شروع کردیا اور پھر نیچے کود گیا اور عین اسی وقت دونوں طرف کے مزدوروں نے اپنے درمیان آخری دیوار کو توڑ کر کھوجک ٹنل کو مکمل کردیا یہ ہوتی ہے شرم اور حیا اپنے کام سے انتہاء کی حد تک محبت کرنے والے جو ندامت اور شرمندگی اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں آج ہم اپنے گریبان میں جھانک کردیکھ لیں کہ کیا ہم اپنے کام سے مخلص ہیں اگر ہیں تب کسی اور کے لیے یہ الفاظ اچھے لگتے ہیں ورنہ اپنے گریبان کے اندر منہ ڈال کر انسان کہہ لے کہ کوئی شرم کرو کوئی حیا کرو اپنے کام سے کچھ تو وفا کرو۔
تحریر: روہیل اکبر
03466444144