تحریر : شاہ بانو میر
13 سال سے زائد عرصہ سے ایک بھارتی نژاد لڑکی گیتا پاکستان میں محترم عبدالستار ایدھی صاحب کے بنائے ہوئے سنٹر میں مقیم ہے ـ سنٹر کے اندر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کیلئے چھوٹا سا مندر بھی بنا ہوا ہے ـ جہاں وہ اپنے بھگوان سے پرارتھنا کرتی ہوگی اور اپنے پیاروں کو آنسوؤں میں یاد کرتی ہوگی ـ گیتا کا تعلق واضح طور پے کس علاقے سے ہے نہیں معلوم لیکن راجھکنڈ کو وہ پہچانتی ہے ـ زبان اور سننے کی حِس سے محروم 13سال قبل غلط ٹرین میں سوار ہو کر پاکستان آ گئی جہاں اسے ایدھی صاحب کے سنٹر پہنچا دیا گیا جہاں وہ خاموش تنہا دیارِ غیر میں زندگی گزار رہی ہےـ مجھے بطورِ انسان بہت فخر ہوا محترم ایدھی صاحب کو میں براہ راست پیرس میں دیکھ چکی مل چکی۔
سادہ طبیعت درویش منش انسان ہمدردی کی احساس کی ایسی بلند سوچ کا حامل یہ انسان نجانے کیسے انسانیت کے اعلیٰ مدارج کو چھو لیتے ہیں محض کسی بھی حادثے کسی بھی سانحے اور کسی بھی قدرتی آفت میں مبتلا لوگوں کیلئے ـ تعفن زدہ لاشوں کو جنہیں اپنے عزیز دیکھنا گوارہ نہیں کرتے یہ انسان اپنے ہاتھوں انہیں کفنا دفنا کر اپنے ضمیر کی جیت کرتا دکھائی دیتا ہےـ ایسے انسان کے پاس جا کر بچیوں کی عزتیں بھی محفوظ اور ان کا اعتماد بھی ـ گیتا بھارتیہ ناری ہے میں سوچ رہی تھی اگر یہ پاکستانی لڑکی ہوتی غلطی سے سرحد عبور کر جاتی تو کیا وہاں کوئی این جی او یا کوئی آشرم کوئی دھرم شالا اُس بچی کو ایسے ہی احترام سے ایسے ہی اپنائیت سے رکھتا۔
کیا اس کی بے زبانی کو جاسوسی ڈرامہ اور اس کے غلط ٹرین میں بیٹھنے کو سرکارِ پاکستان کی نئی دہشت گرد گیم نہ کہا جاتا ؟آخر یمن میں لاچار بھارتی باشندوں کو انسانیت کے نام پر پاکستان خیریت سے عافیت سے بھارت پہنچاتا ہے ـ وقتی طور پے شکریہ کہہ دیا جاتا ہےـ لیکن اندر کی خصلت جسے فطرت کہا جاتا ہے وہ نہیں بدلتی کیونکہ کمزور لوگ ہمیشہ مد مقابل کیلئے سیاسی انداز میں منفی پراپگینڈا کر کے اپنے لئے راستہ بناتے ـاور مثبت اور سچی محنت کرنے والے کسی کی برائی نہیں کرتے صرف اپنے کام کی،استعداد بڑہا کر کامیاب ہونا پسند کرتے ـ بھارت پہلے والی سوچ کا مالک ہے ـ پاکستان کی کوئی نیکی کوئی اچھائی کوئی انسانی ہمدردی اس کیلیۓ زہرِ قاتل ہے لہذا اسے ہر وہ بات اچھالنی ہے جو پاکستان کا منفی تاثر دنیا کے سامنے پیش کرے وہ کئی بار کامیاب بھی ہوئے۔
لیکن کہیں نہ کہیں اوپر بیٹھا میرا سچا رب انصاف کرتا اور ایسے انہونے واقعات لا کر دنیا کو بتاتا کہ خوبصورت فطرت کس ملک کی ہے ـ گیتا کو دیکھ کر ہر پاکستانی کو اس سے دلی ہمدردی ہے میڈیا کی کوششیں قابل ستائش ہیں اور انہی کوششوں کی وجہ سے آج بھارتی اہم شخصیت نے ایدھی ہوم کا دورہ کیا اور گیتا سے ملاقات کر کے اس کیلیۓ ضروری سفری دستاویزات اور دیگر سہولیات کیلیۓ ابتداء کی ـ انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان بھارت کی کوششوں کو سراہا ـبھارت نے ہمارے لوگوں پر جیل میں کیسے کیسے مظالم ڈھائے ہیں کس کس انداز میں انہیں زدوکوب کر کے غیر انسانی تشدد سے انہیں موت کے گھاٹ اتارا ہے یہ ہر پاکستانی جانتا ہےـ اس کے علاوہ کئی سالوں سے جاری پاکستان میں را کا گھٹیا کردار اور پاکستانیوں کا قتلِ عام زرخرید بے ضمیر پاکستانیوں سے اور بلوچستان کے علاوہ پنجاب سندھ میں مسلسل دہشت گردی ہمارے علم میں ہیں۔
ان تمام حادثات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم بھی بھارتی نیچ انداز اپناتے تو کون ہمیں روک سکتا تھا اگر شک و شبہے کی بنیاد پر گیتا کو حوالہ پولیس کر دیا جاتا ؟ اور اس کے بارے میں منفی خبریں لگا کر بھارتی میڈیا اور حکومت کو نیچا دکھایا جاتا ـ لڑکی کے بارے میں ایسی خبریں بھارتی لوگ اور میڈیا ہرگز برداشت نہ کرتے اور ہم انہیں ذہنی اذیت میں مُیتلا کر کے نفسیاتی طور پے نیچا دکھا سکتے تھے ـ لیکن الحمد للہ اس غیرت مند پاک زمین کا ہر فرد حساس بھی ہے اور ماوؤں بیٹیوں کی عزت کا دعویدار بھی ـ کہنے کو ہی سہی لیکن مسلمان ہونے کے ناطے اسلامی کچھ اقدار ہمارے خون کا حصّہ ہیں جو ہندو دھرم نہیں سکھاتا ـ گیتا ہماری بیٹیوں جیسی ہے ہمارے پاس محفوظ مطمئین ہے ـ دوسرے ملک کا احساس اجنبی لوگوں کے درمیان ہونے کا کٹھن جانگسل احساس ہم نہیں ختم کر سکتے ـ مگر اس کی بے زبان دنیا کو اپنی بھرپور کوششوں سے پُرامید رکھ سکتے ہیں۔
گیتا آپ ہماری بیٹی ہیں جب تک آپ کے بھارت جانے کا بندوبست مکمل طور سے محفوظ انداز میں نہیں ہوتا انشاءاللہ ایدھی صاحب بلقیس ایدھی آپکو والدین کی اپنوں کی کمی نہیں محسوس ہونے دیں گے ـ بھارت صرف یہ کہنا ہے ذرا سا بھی ضمیر زندہ ہوگا تو اس میزبانی کو اس محبت کو اس عزت کو اس تحفظ کو جو تنِ تنہا پاکستان نے اس بیٹی کو دی جو بھارتیہ ناری ہے تو سرحدوں پر جاری بے وجہ کی بمباری کو روک کر انسانیت کا سبق سنا دو کہ جس سے آج پھر تین بے گناہ پاکستانی شہید ہو گئے ـ ورنہ میں لکھنے پر مجبور ہوں کہ بھارت کوئی شرم ہوتی ہے کوئی غیرت ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کہ سامنے والا آپ کے شہری کے ساتھ کیسا عمدہ سلوک کر رہا اورآپ اس کے شہریوں کے ساتھ کیسا غیر انسانی کر رہے۔
تحریر : شاہ بانو میر