زیرِنظر کتاب ’’شعور‘‘ ایک باکمال، قابل صد تحسین اور معاشرے کی جیتی جاگتی تصاویر کی عکس بندی ہے۔ اس میں ایسے انسانی شعور کی بات کی گئی ہے جس کی ایک سطح وہ ہے جہاں انسان بدکلامی کا جواب بدکلامی سے دیتا ہے، اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے کتاب کی کچھ تکنیکی تفصیلات ملاحظہ فرمائیے۔
دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان بدکلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور بدکلامی کرنے والے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
شعور کی ایک تیسری سطح بھی ہے جس میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے بلکہ برے اخلاق کا جواب بہترین اخلاق سے دیتا ہے۔ شعور کی یہی تیسری سطح ہے جو بدترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کردیتی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرے میں اچھا اخلاق پروان چڑھتا ہے۔
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی اسی تیسرے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور نہایت خوبصورتی سے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ سفر میں جہاں کہیں ناہموار راستہ دیکھتے ہیں، اسے علم و فہم کی روشنائی سے نمایاں کرتے جاتے ہیں تاکہ شعور کے مصالحے سے راہ ہموار کرسکیں۔ ان کے قلم کی چال ایسی ہے کہ ہر انسان دورانِ مطالعہ بہ آسانی محوِ سفر ہوسکتا ہے۔ تو آئیے، ہم بھی اس سفر میں ان کے ہمراہی بن جائیں۔
پاکستان کا ایک سنگین اور حساس مسئلہ معاشرے میں پھیلتی بداخلاقی، کم علمی اور غربت و جہالت جیسی ناہمواریاں ہیں جن کے باعث انسانی زندگی کا پہیہ رواں تو رہتا ہے مگر ہچکولے کھاتے ہوئے دوسروں کی زندگی بھی عذاب بنا دیتا ہے۔ ایسے میں صاحبانِ علم و فہم کم ہی ملتے ہیں جو اخلاقی، شعوری اور تہذیبی وراثت عوام میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
نوجوان، باصلاحیت اور دانشور مصنف ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی کا شمار بھی ایسے ہی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے جو بڑی سنجیدگی، عقل و فہم، تدبر اور دلیل کی بنیاد پر اخلاقی، تمدنی و معاشرتی امور اور غربت جیسے مسائل کو نظام کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ایکسپریس کے قارئین کا ان سے تعلق ہے اور ان کی تحریریں ہمیشہ اپنے منفرد انداز کی بناء پر پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہتی ہیں۔ ان کی علمی دلچسپی کے میدان میں تصوف، فلسفہ، محبت، معیشت، سیاست، ثقافت اور تاریخ شامل ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخلاقیات، عبادات اور نفسیات کو ایک کڑی میں سمجھنے میں کامیاب ہوں۔ اسی طرح وہ انسانی رویوں اور انسانوں میں فیصلہ کرنے کی استعداد کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں۔
ان کی پہلی کتاب ’’جستجو‘‘ پڑھنے کو ملی۔ بظاہر تو ایسا لگا کہ یہ بھی دیگر کتب کی طرح ایک خشک موضوع پر مبنی ہو گی لیکن ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہایت مشکل باتوں کو کہانی کے انداز میں خوبصورتی کے ساتھ پیش کرکے نوجوان طالب علموں کی مثبت رہنمائی کا حق خوب ادا کیا ہے۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ان امکانات کی تلاش میں ہے جن سے بے شعوری، کم علمی، غربت اور غلامی کا خاتمہ ہو۔
زیرِ نظر کتاب ’’شعور‘‘ میں عوامی شعور بیدار کرنے کی غرض سے مصنف نے 87 ایسی کہانیاں بیان کی ہیں جو جھوٹ پر مبنی ہیں مگر بقول مصنف، ’’یہ تمام جھوٹی کہانیاں آپ کو ہمارے معاشرے میں ہی مل جائیں گی، صرف دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔‘‘ ان میں ذہنی آوارگی، نالائقی، بیلنس لائف، پتلی تماشا، ادھورے مرد، مکمل عورتیں، لال بتی، پیری فقیری ڈاٹ کام، مچھلی بازار اور ہارنا سیکھیے جیسی باکمال اور پڑھنے کے لائق کہانیاں ہیں کہ واقعتاً انسانی شعور جاگتا ہوا نظر آتا ہے۔ کتاب میں اخلاقی اصولوں کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے جو اچھی کاوش ہے کیونکہ کوئی بھی نظام اپنے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہی لوگوں میں اپنی ساکھ بناتا اور بگاڑتا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ بری حکمرانی، برا حکمران طبقہ اور استحصال پر مبنی معاشرتی سوچ ہے۔ یہ طبقوں میں بٹا ہوا ملک ہے اور اس کی مساوی ذمہ داری یہاں کے حکمرانوں اور عوام، دونوں پر ہے۔ ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی جس بے شعوری، کم علمی، جہالت، غربت اور غلامی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں اس کا براہِ راست تعلق مروجہ سیاسی نظام اور اس کے چلانے والے افراد ہی سے نہیں بلکہ اس میں بسنے والے شہریوں سے بھی ہے۔ اس لیے ہمیں ایک منصفانہ اور شفاف سیاسی نظام درکار ہے جو اپنے آپ میں شعور اور علم و فہم پیدا کیے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال، ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی نے اس کتاب میں کئی اہم پہلوؤں پر بات کی ہے اور ان کی کاوش واقعی قابل قدر ہے؛ کیونکہ وہ اس نقطہ پر متفق ہیں کہ ’’شعور‘‘ ہی انسان کو بلندیوں کے مراتب طے کرواتا ہے۔
جنہیں زندگی کا شعور تھا، اُنہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر