سوئی گیس کے بلوں پر بلبلاتے لوگوں کی بپتا سنتے ہوئے گزشتہ کئی روز سے سوچ رہا ہوں کہ شہزاد اکبر نام کے ایک صاحب ہوا کرتے تھے۔ عمران خان صاحب نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہیں احتساب کے امور پر اپنا مشیر تعینات کیا تھا۔ اپنی تعیناتی کے فوری بعد وہ ٹی وی سکرینوں پر رش لینا شروع ہوگئے۔ بہت اعتماد سے انہوں نے ہمیں قائل کردیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کئی ملکوں کو باقاعدہ چٹھیاں لکھ دی ہیں۔ مختلف بین الاقوامی اور کئی ممالک سے باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ جو پاکستانی نژاد ہیں ایسے ہی ایک معاہدے پر دستخط کرنے خاص طورپر اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد خبر یہ بھی ملی کہ دوبئی ہو یا سوئیٹزرلینڈ، فرانس ہو یا جرمنی۔ ان ممالک میں موجود پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات حکومت کو موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں۔شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی غیر ممالک میں دولت اور اثاثے تو ویسے بھی ’’غیر قانونی‘‘ ثابت ہوچکے۔اب محض ضابطے کی کارروائی کا انتظار ہے۔ شہزاد اکبر صاحب سے میں ہرگز آشنا نہیں۔ صرف ایک بار ان دنوں ایک ٹی وی پروگرام کے لئے ان سے گفتگو کا موقعہ ملا جب وہ اسلام آباد میں مقیم چند امریکی سفارت کاروں کے خلاف ڈرون حملوں کے ذریعے ہوئی ہلاکتوں کے خلاف ایف آئی آر کٹواچکے تھے۔اس ملاقات میں وہ شائستہ مگر اپنی ایک الگ ہی دُنیا میں مقید نظر آئے۔
خواب دیکھنے والے مجھے اچھے لگتے ہیں۔نیک نیت لوگوں کے خوابوں کو مگر حکومتی پالیسی کے طورپر اپنا لینا کافی رسکی شغل ہوتا ہے۔ شہزاد اکبر کے دیکھے خواب اگرچہ اس حکومت کے وعدوں کی صورت ہمارے سامنے آنے لگے۔ شہزاد صاحب سے کسی بھی نوعیت کی ذاتی پرخاش نہ رکھنے کے باوجود میں اس کالم میں بارہا فریاد کرتا رہا کہ غیر ملکوں میں جمع ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کی سرکاری خزانے میں لوٹنے کی امید نہ باندھی جائے۔ یہ فریاد کرتے ہوئے میں خاص طورپر برطانیہ میں چند مہینے قبل متعارف ہوئے ایک یو ڈبلیو او کا تفصیلی ذکر کرتا رہا۔ اس قانون کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر شہزاد اکبر صاحب جیسے نیک نیت لوگوں کی کاوشوں سے اعلیٰ ترین قانونی معاونت جو ظاہر ہے بہت مہنگے داموں میسر ہوتی ہے،اگر پاکستان نے مثال کے طور پر برطانوی عدالت میں یہ ثابت کر بھی دیا کہ شریف خاندان کے ایون فیلڈ والے فلیٹس ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے ذریعے خریدے گئے تو یہ فلیٹس ’’قرق‘‘ ہوجائیں گے۔برطانوی حکومت ان فلیٹوں کو نیلام کرے گی۔نیلامی کے بعد جو رقم حاصل ہوگی اس میں سے ایک پائی بھی پاکستان کے حصے میں نہیں آئے گی۔ ہم بی فاختہ کی طرح سودُکھ جھیلنے کے بعد محض برطانوی خزانے ہی کو بھرتے نظر آئیں گے۔
میں جو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا اس پر ٹھنڈے مزاج سے کوئی غور کرنے کو تیار نہ ہوا۔کرپشن کے خلاف جہادی جذبات سے سرشار کئی افراد نے بلکہ میری داد فریاد کو ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کی اس کوشش کا حصہ قرار دیا جو اپنے ’’مربیّ‘‘ -شریف خاندان-کو ’’بچانے‘‘ میں مبتلا ہے۔ شاید جنوری میں آئے گیس کے بلوں کو دیکھ کر ان دوستوں کو میری گزارش پر دوبارہ غور کرنے کی زحمت اٹھانا پڑے۔ اگر ایسا ہوجائے تو فریاد یہ بھی ہے کہ شہزاد اکبر صاحب کو خود پر نازل کی گوشہ نشینی سے باہر آکر ہم عامیوں سے خطاب کرنا چاہیے۔ انہیں تعینات ہوئے چھ ماہ ہونے والے ہیں۔اس عرصے میں ان کی کارکردگی کی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ ہمارے سامنے آنا چاہیے۔ اس ’’پراگرس رپورٹ‘‘ کی بدولت ہمیں یہ خبر مل جائے گی کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا ’’سراغ‘‘لگانے کے لئے شہزاد اکبر صاحب اب تک کتنے غیر ملک جاچکے ہیں۔ظاہر ہے یہ سفر انہوں نے اپنے پلے سے ہوائی جہاز کے ٹکٹ خرید کرنہیں کیا ہوگا۔پاکستان سے باہر قیام کے دنوں پربھی کچھ خرچہ ہوا ہوگا۔ ہم ٹیکس گزاروں کا یہ حق ہے کہ جان پائیں کہ اب تک قوم کی لوٹی ہوئی دولت سرکاری خزانے میں واپس لانے پر کتنی رقم خرچ ہوئی۔ شہزاد صاحب جیسے نیک نیت لوگ ہماری ریاست کے لئے موؑثر لاگت ثابت ہورہے ہیں یا نہیں۔
بدقسمتی ہماری یہ بھی ہے کہ شہزاد صاحب کی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ والے سوالات مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کو اٹھانا پڑرہے ہیں۔ہمارے ہاں خود کو ہر ادارے پر ’’بالادست‘‘ قرار دینے والی پارلیمان بھی موجود ہے۔ جولائی 2018 کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے اب تک سات سیشن ہوچکے ہیں۔ میں نے ان سیشنز کے تقریباًََ ہر اجلاس کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں دی نیشن کے لئے اپنا کالم بھی لکھتا رہا ہوں۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ’’ہمارے‘‘ کسی ایک بھی ’’نمائندے‘‘ نے وقفہ سوالات والی سہولت کو بروئے کار لاتے ہوئے شہزاد اکبر صاحب کی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ طلب نہیں کی ہے۔ میرے اور آپ کے ’’نمائندہ‘‘ ہونے کے دعوے دار جب اپنا فرض نبھانہ پائیں تو بدنصیب کالم نگاروں کو چند سوالات اٹھانا ہوتے ہیں۔ہم سوال اٹھائیں تو حکومت ناراض ہوجاتی ہے۔ ہمارے سوالات سے حکومت کی خفگی شاید بے بنیاد بھی نہیں۔اس کے وزراء کو یقیناً یہ خیال آتا ہوگا کہ جب قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن کا کوئی ایک بھی رکن ’’تکلیف دہ‘‘ سوالات نہیں اٹھاتا تو کالم نگار ’’بی جمالو‘‘ کا کردار کیوں ادا کررہے ہیں۔ خلقِ خدا کے ذہنوں میں لیکن اپنی بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کے سبب بے تحاشہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
ان کے نام نہاد ’’نمائندے‘‘ ان سوالات کو منتخب اداروں میں نہیں اٹھائیں گے توبتدریج غیر متعلق ہوجائیں گے۔اپنی اہمیت کھودیں گے۔ کالم نگار بھی اگر صرف ’’رپورٹنگ‘‘ تک محدود ہوگئے تو اپنی وقعت کھودیں گے۔ میڈیا اور ’’منتخب نمائندے‘‘ جب حقیقی سوالات اٹھانا چھوڑ دیں تو فرانس جیسے ممالک میں بھی جہاں سے ’’اظہار رائے‘‘ کے تصور نے آج سے تین سو سال قبل جنم لیا تھا ’’غیر متعلق‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ’’پیلی جیکٹوں والے‘‘ نمودار ہوجاتے ہیں۔ نومبر 2018 سے ہر ویک اینڈ پر پیرس میں جمع ہونے والے ’’پیلی جیکٹوں والوں‘‘ کو فرانس کے ’’لی ماند‘‘ جیسے تاریخی اور بائیں بازو کے دانشوروں کے پسندیدہ اخبار نے بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس ملک کے بہت ریٹنگز لینے والے ٹیلی وژن بھی اس تحریک کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔’’پیلی جیکٹوں والی تحریک‘‘ کی وجہ سے آیا بحران مگر ختم نہیں ہوا ہے۔ فرانس کی پولیس نے اس تحریک کے مظاہرین پر قابو پانے کے لئے اب ایسی گولیاں بھی استعمال کرنا شروع کردی ہیں جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لئے کئی برسوں سے استعمال کررہا ہے۔آخری خبریں آنے تک کم از کم تیس مظاہرین ان گولیوں کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوئے۔ویک اینڈ کے ہنگامے ختم نہیں ہورہے۔ حقیقی بحران سے بچنے کا واحد راستہ پارلیمان میں خلقِ خدا کی حقیقی نمائندگی ہے اور میڈیا میں ان کی معاشی مصیبتوں کی وجہ سے اٹھتے سوالات کا بھرپور اظہار۔ شہزاد اکبر صاحب اپنی کارکردگی کی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ فراہم کرتے ہوئے ہماری تشفی کا کچھ دیر کو یقینا بندوبست کرسکتے ہیں۔