میاں نواز شریف کو 10سال،صاحبزادی مریم نواز کو سات سال اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا،نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ ایون فیلڈ فلیٹس کی ضبطی… یہ ہیں وہ سزائیں جو کل پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کے تین اہم افراد کو ملیں،اس میں کوئی دوسری رائے نہ تھی کہ سابق وزیراعظم اور دیگرملزمان کو سزا ہوگی۔
شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے حلقوں کو بھی معلوم ہوچکاتھا کہ وہ سزا سے بچ نہیں سکیں گے،البتہ دل کی دھڑکنیں صرف اس سوال پر تیز تھیںکہ تینوں ملزمان میں سے کس کو کتنی سزا ہوگی اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ یادرہے کہ ایک برس کے دوران میں سابق وزیراعظم کے خلاف یہ تیسرا عدالتی فیصلہ ہے، اس سے قبل سپریم کورٹ نے ان کے خلاف پاناما پیپرز لیکس کیس میں سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل قراردیاتھا، بعد ازاں انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 سے متعلق فیصلہ میں میاں نوازشریف کو پارٹی صدارت سنبھالنے سے بھی روک دیاگیاتھا۔
اب سوال یہ ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد کیا میاں نوازشریف کی سیاست میں واپسی کے امکانات باقی ہیں، ان کی جانشین مریم نواز کی سیاست کا کیا ہوگا اور مسلم لیگ ن کی سیاست پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف نے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ سراسر زیادتی اور ناانصافی پر مبنی ہے جس میں کئی قانونی خامیاں موجود ہیں۔ یہ کیس عدالت عظمی کے تین بنچوں نے سنا اور پھر جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل رپورٹ مرتب کی، پورے مقدمے میں کوئی ٹھوس قانونی دستاویز مہیا نہیں کی گئی، پاناما، ایون فیلڈ اور آف شور کمپنیوں میں نوازشریف کا نام نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کے لیے وہ 109 مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے، ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ نیب عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن 25 جولائی کو عوامی عدالت لگنے والی ہے، عوامی فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ثابت کرے گا کہ عوامی عدالت کا فیصلہ ہی ٹھیک ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا: ’’میں پاکستان کے کونے کونے میں جاؤں گا اور جاکر اس زیادتی اور ناانصافی سے عوام کو آگاہ کروں گا، 25 جولائی کو پاکستانی قوم فجر کی نماز کے بعد عوامی عدالت میں صحیح معنوں میں گواہی دے گی، ہم الیکشن لڑیں گے اور جہاں جہاں زیادتی ہوگی ہم قوم کو بتائیں گے تاکہ کوئی یہ نا کہہ سکے کہ وقت پر بتایا نہیں‘‘۔
مریم نواز نے فیصلہ سے پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ نواز شریف کے لیے یہ سب نیا نہیں،وہ پہلے بھی نااہلی، عمر قید، جیل اور جلا وطنی بھگت چکے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئی لیڈر ہے جو آپ کی خاطر، وطن عزیز کی خاطر، آپ کے ووٹ کی عزت کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہے اور کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔ راستہ آسان نہیں،قیمت چکانی پڑے گی، مقابلہ جمہوریت کی آستین میں چھپے سانپوں سے ہے جنہوں نے ووٹ کی حرمت پامال کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔
انھوں نے اپنے والد کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ ڈرے نہیں، آپ جھکے نہیں۔ آپ نے ذاتی زندگی پر پاکستان کو ترجیح دی۔ عوام آپ کے ساتھ کھڑی ہے، فتح آپ کی ہوگی۔ انشاء الّلہ! پاکستان میں 70 سال سے سرگرم نادیدہ قووتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی یہ سزا بہت چھوٹی ہے۔ آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور بلند ہو گیا‘‘۔
ماہرین قانون کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس کیس کے فیصلے کو نواز شریف پہلے مرحلے میں ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں،اگر ہائی کورٹ بھی ان کی اپیل کو مسترد کردے تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ سابق وزیراعظم کا میدان سیاست میں فوری طور پر واپس آنا مشکل ہے، وہ پہلے ہی نااہلی کی سزا کاٹ رہے ہیں، انھوں نے نااہلی کے بعد کئی مہینوں تک کی عوامی رابطہ مہم میں اپنی ذمہ داری پوری کرلی، اپنا موقف پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھا اور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی کہ صرف ان کا احتساب دراصل سیاسی انتقام ہے۔ اب میاں نوازشریف کی سیاسی بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ وطن واپس آکر فیصلے کا سامنا کریں۔ صرف اسی صورت میں ان کی پارٹی کی سیاست بچ سکے گی۔
احتساب عدالت کے فیصلے سے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر شدیدمتاثر ہوئے ہیں، بادی النظر میں وہ انتخابات 2018ء میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یادرہے کہ مریم نواز دو حلقوں این اے 127 اور پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 173 کے لیے میدان میں تھیں۔ اسی طرح کیپٹن (ر) صفدر این اے 14 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ اگر ان دونوں نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردیں اور عدالت عالیہ ان کی سزا معطل کردے۔
اسی طرح مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر درخواست ضمانت بھی دائر کرسکتے ہیں، فیصلہ حق میں آنے کی صورت میں وہ انتخابی مہم میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔ اگرمریم نواز نے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا تویہ امر نہایت دلچسپ ہوگا کہ وہ پہلی بار انتخاب لڑنے سے پہلے ہی نااہل قراردیدی گئیں۔ واضح رہے کہ میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر فیصلے کے خلاف دس روز کے اندر اپیل کرسکتے ہیں۔
میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کو پہلے ہی فیصلے کا ادراک ہوچکاتھا، اس لئے انھوں نے اس سے نمٹنے کے لئے مکمل حکمت عملی بھی طے کرلی تھی۔ اب جبکہ پارٹی کی ساری ذمہ داریاںمیاں شہبازشریف کے کندھوں پرآن پڑی ہیں، ان کے سامنے دو آپشنز تھے کہ وہ اپنے بھائی کی سزا کے خلاف سڑکوں پرآجاتے، انتخابات کا بائیکاٹ کردیتے یا پھر اپنی جماعت کو فیصلے کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرتے۔
پہلا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں انھیں ریاستی اداروں کی غیظ و غضب کا سامنا کرناپڑتا، عین انتخابی مہم کے دوران میں مسلم لیگ ن کو مشکلات کا سامنا کرناپڑتا۔ مخالفین اپنی انتخابی مہمات چلاتے اور ان کی جماعت کے لوگ گرفتاریوں اور جیلوں کے چکر میں پڑجاتے چنانچہ انھوں نے دوسرا آپشن اختیار کیا۔
ویسے احتساب عدالت کے فیصلے سے بہت پہلے مسلم لیگی ذمہ داران اشارے دے رہے تھے کہ مسلم لیگ ن فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان کا کہنا تھاکہ پارٹی احتجاجی یا دھرنا سیاست نہیں کرے گی بلکہ ہم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے اور عوام کی طاقت سے کامیابی حاصل کریں گے۔
اب مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت کی پہلی ترجیح 25جولائی کے عام انتخابات ہیں۔ نوازشریف، مریم نواز کی سزا کے خلاف انتخابی جلسوں میں احتجاج کیاجائے گا۔ نواز شریف کو ملنے والی سزا کے تناظر میں ن لیگ اس معاملے کو اپنی انتخابی مہم میںسیاسی طور پر سامنے لاکر عوام کی زیادہ سے زیادہ ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ الیکشن میں اسے کامیابی مل سکے۔ تاہم یہ راستہ چیلنجز سے بھرا ہواہے۔
پہلا چیلنج میاں نوازشریف اور مریم نواز کی برطانیہ سے واپسی کے موقع پر درپیش ہوگا، یقینی طور پر مسلم لیگ ن اس موقع پر ایک بڑا پاور شو کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر وہ اس مرحلے پر کامیاب ہوگئی تو مسلم لیگ کی انتخابی مہم پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرناکامی کا سامنا کرناپڑا تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو انتخابات کے دوران میں ہوگا جو اس ساری صورت حال کا کریڈٹ لے رہی ہے۔
اس کے بعد دیکھناہوگا کہ میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی کس اندازمیں جیل کی زندگی گزارتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی مستقبل کی سیاست کا تعین ہوسکے گا۔ شریف خاندان کے بارے میں پہلے ہی ایک تاثر غالب ہے کہ مشرف دور میں وہ ڈیل کرکے بیرون ملک چلے گئے تھے، اگر اس بار بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا تو اس سے ان کی جماعت کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پچھلے ایک برس سے جس ’بیانئے‘ کے پرچارک رہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ وہ سزا بھگتیں اور جیل میں رہ کر اپنی جماعت کو مضبوط کریں۔
احتساب عدالت کے اس فیصلے کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ سابق وزیراعظم گزشتہ ایک برس کے دوران میں قوم کو باور کرارہے ہیں کہ انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاگیاہے، کیونکہ احتساب صرف انہی کا ہواہے، گرفتاریاں اور نااہلیاں بھی صرف مسلم لیگ ن ہی کے حصے میں آئی ہیں، یہ سب کچھ ایک گروہ کو برسراقتدارلانے کے لئے کیاجارہاہے۔
اگر آنے والے دنوں میں احتساب کا دائرہ وسیع نہ ہوا تو میاں نوازشریف کے موقف کو تقویت ملے گی، اس تناظر میں مسلم لیگ ن مظلومیت کا تاثر پھیلا کر انتخابات میں فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسا کوئی تاثر نہ بننے دیاجائے کہ کسی ایک گروہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاجارہاہے، اس کے لئے ازحد ضروری ہے کہ احتساب ہو اور بلاامتیاز ہو۔
’’فیصلہ ملک میں حقیقی احتساب کا غماز، سلسلہ رکنا نہیں چاہیے‘‘: حامد خان
معروف قانون دان حامد خان نے کہا: ’’میں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب وطن عزیز میں حقیقی احتساب کا عمل شروع ہو گیا، یعنی احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے، جو خوش آئند ہے لیکن یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے۔ ہر اس بندے کا احتساب ہونا چاہیے جس نے کوئی پبلک آفس ہولڈ کر رکھا ہے یا کر رہا ہے۔ اس فیصلے کے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے تاثر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے تاکہ آنے والے فیصلے کو متنازع بنایا جا سکے، اس فعل سے عدلیہ کی آزادی پر حرف بھی آتا ہے۔ البتہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلے پر تنقید کرے، لیکن یہ تنقید فیصلہ پڑھنے کے بعد اور آئینی و قانونی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ مذکورہ فیصلہ سنانے میں تاخیر کوئی بڑی بات نہیں، یہ عدالت کا حق ہے ، عدالت نے کون سا فیصلہ سنانے میں کئی دن کی تاخیر کر دی، لہٰذا میرے نزدیک تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں‘‘۔
فیصلہ موخر کرنے کی نواز شریف کی طرف سے دائر کی گئی درخواست مسترد کرنے پر حامد خان گویا ہوئے کہ اس کیس میں کیا ابھی مزید وقت دینے کی کوئی گنجائش ہے؟ میرے خیال میں تو پہلے ہی اس کیس کے لئے بہت وقت دیا جا چکا ہے، لہٰذا مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں تھا۔ فیصلے کے بعد قانون کے مطابق میاں نواز شریف سمیت دیگر ملزموں کی گرفتاری ضروری ہو چکی ہے، لیکن اب اگر وہ ملک میں موجود نہیں تو یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ ریڈ وارنٹ جاری کرکے ان کی گرفتاری یقینی بنائے۔
حسن و حسین نواز کے بارے میں تو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہی نہیں تو ان پر اس فیصلے کا اطلاق کیسے ہو گا؟ کے جواب میں ماہر قانون نے بتایا کہ جرم تو جرم ہے، وہ کسی بھی خطے یہ ملک میں ہو۔ اگر ایک غیر ملکی پاکستان میں کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسی طرح قانون کو جوابدہ ہے جس طرح کوئی پاکستانی۔ دیکھنے والا معاملہ صرف یہ ہے کہ جرم کس ملک میں ہوا ہے اور اس جرم کے حوالے سے وہاں کا قانون کیا کہتا ہے؟
قانونی فیصلے کے سیاسی اثرات پر بات کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے، لیکن اس کا ملک کی سیاسی و امن و امان کی صورت حال پر اثر نہیں پڑے گا اور نقص امن کی کسی طور اجازت بھی نہیں دی جا سکتی، تاہم قانونی چارہ جوئی متاثرہ فریقین کا حق ہے۔
’’سزا کم سنائی گئی، نیب کو اپیل میں جانا چاہیے‘‘: اظہر صدیق
چیئرمین جوڈیشل ایکٹوزم پینل و سنیئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اظہر صدیق کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں کم سزا سنائی گئی، ان کے مطابق نیب کو اپیل میں جانا چاہیے، کیونکہ قید کی سزا 14 سال بنتی ہے۔ جرمانہ بھی کم ہے کیونکہ جتنی پراپرٹی ہے، اتنا تو جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی قائم ہونے والے تاثر اور میاں نواز شریف کی طرف سے فیصلہ میں تاخیر کی دی جانے والے درخواست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط تھا کہ میاں نواز شریف کو سزا ہونی ہی ہے۔
بھائی! آپ اور کیا چاہتے ہیں، یہ کیس 126 روز سپریم کورٹ کے سامنے چلا، 60 روز جے آئی ٹی اور اب گزشتہ دس ماہ سے نیب کورٹ میں چل رہا تھا تو اس میں کوئی ایسی گنجائش رہ گئی تھی؟ میں یہ سمجھتا ہوں جتنا right to fair trial انہیں ملا، تاریخ میں کسی کو نہیں ملا۔ رہی بات فیصلہ موخر کرنے کی تو میاں نواز شریف کی درخواست تو قابل سماعت ہی نہیں، کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔ میاں نواز شریف اب ایک سزا یافتہ مجرم ہیں، جنہیں انٹرپول کے ذریعے فوری گرفتار کیا جانا چاہیے۔
کرپشن کے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن 2005ء کے مطابق میاں نواز شریف کو بیرون ملک سے گرفتار کیا جا سکتا ہے،اگر چلی کے صدر کو لندن سے گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ایک سابق وزیراعظم کو کیوں نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ حسن اور حسین نواز دوہری شہریت رکھتے ہیں، ان پر پاکستان کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان کے دائمی وارنٹ جاری کئے گئے ہیں اور اگر وہ اگلی پشی پر بھی عدالت پیش نہیں ہوتے تو پھر انہیں 3 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
’’آج کل کے مقدمات انجینئرڈ پولیٹیکل ایکسرسائز کا حصہ ہیں‘‘: عابد حسن منٹو
آئینی و قانونی امور کے معروف ماہر عابد حسن منٹو نے ’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر شریف خاندان کے حوالے سے گزشتہ روز سنائے جانے والے فیصلے پر بوجوہ کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ میرے سامنے فیصلے کی تفصیلات ہی موجود نہیں کہ کن بنیادوں یا نکات پر سزاؤں کا فیصلہ کیا گیا، تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں کہ آج کل یہ جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں، جن کی بازگشت نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے، وہ سب انجیئرڈ پولیٹیکل ایکسرسائز کا حصہ ہیں۔ سیاست دانوں کے ایک خاص گروپ کو ٹارگٹ کرنا کسی طور درست امر نہیں۔