تحریر: سید انور محمود
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132 طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا، خاصکر وہ والدین جن کے بچے ابھی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات نا صرف مقررہ وقت سے پہلے کردی گئیں تھیں بلکہ بعد میں اُن میں توسیع بھی کر دی گئی تھی اور اس دوران تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے انتظامات کو بڑھایا گیا۔
بارہ جنوری کوسارئے ملک میں اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا۔ پشاور کا آرمی پبلک اسکول جب دوبارہ کھلا تو فوج کےسربراہ جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں طالب علموں اور اُنکے والدین کے استقبال کےلیے موجودتھے۔ پاکستانی میڈیا نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی آرمی پبلک اسکول پشاور میں موجودگی کو پوری طرح کوریج دی۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’تمام بچے ہائی سپرٹس میں ہیں اور اس قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی‘۔ اسکول ایک مختصر سی تعزیتی تقریب کے بعد دوبارہ بند کردیا گیا اور باضابطہ طور پر اسکول منگل کو کھلے گا۔
بارہ جنوری کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی تقریب میں کوئی سیاسی قیادت موجود نہ تھی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم از کم خیبر پختون خوا کے وزیر تعلیم اور وزیر داخلہ وہاں موجود ہوتے لیکن شاید وزیر اعلی پرویز خٹک اور اُنکی کابینہ کےلیے یہ اہم نہ تھا کہ وہ اُس اسکول میں موجود ہوتے جہاں صرف 26 دن پہلے 132 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ تقریب مختصر ضرور تھی لیکن دہشتگردوں اور پاکستان میں موجود اُنکے حامیوں کےلیے ایک واضع پیغام تھا کہ سوائے گنے چنے طالبان دہشتگردوں کے حامیوں کے پوری قوم اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔
سولہ دسمبر 2014ء کے سانحہ کے بعد ساری سیاسی قیادت اکھٹا ہوگئی ہے سوائے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف ) کے جن کا شمارطالبان دہشتگردوں کے ہمدردوں میں سرفہرست ہے۔ پشاور اسکول پر ہوئے حملے کے بعد ملک کی سیاسی وعسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اب دہشت گردوں کےخلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آچکا ہے اور فوج نے جہاں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا وہیں سزا پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پرعملدرآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی۔ اب تک دہشتگردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے سترہ مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
میرئے ایک مضمون ْ نواز شریف ماوُں کی گودیں اجاڑنے کے ذمہ دارْ پر تبصرہ کرتے ہوئے میرئے ایک محترم دوست نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ ْایک بات کی طرف بھی دھیان دیں کہ یہ اسلحہ اور بارود یہ جنرل اسٹور سے ملنے والی اشیاء بالکل نہیں ہیں، ہزارو کلو دھماکہ خیز مواد یہ طالبان گروہ گھروں میں بیٹھ کر تیار نہیں کرتے، ان کے پیچھے جو دوسرے ملکوں کی ایجنسیاں ہیں ان کے بھی ہاتھ کاٹنے چائیے، تازہ ترین صورت حال ہی سمجھ لیں، کہ پھانسی کی سزاؤں پر یورپ میں کیا ردعمل ہو رہا ہے، اور وہ این جی اوز جو بیرون ملک کی فنڈنگ سے چلتی ہیں
اور ہمارے پیارے دیس میں سرکنڈوں کی شکل میں جگہ جگہ پھانسی کی سزاؤں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیںْ۔ محترم دوست کا مشورہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ دہشتگردی کےلیے طالبان دہشتگردوں کواسلحہ اورسرمایہ کہاں سے مل رہا ہے۔ یقینا پشاور کے حملے کے بعد حکومت کے ہاتھ کچھ ایسے ثبوت ملے ہیں جنکو لیکر جنرل راحیل شریف حملے کے دوسرئے دن ہی کابل پہنچ گے تھے اور وہاں اُنکی ملاقات افغان صدر اور فوج کے سربراہ سے ہوئی تھی، اسکے بعد ہی افغان خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان دہشتگردوں کو اسلحہ اور فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہےاور کیوں ہورہی ہے اور اُسکی دہشتگرد کارروایئوں کی حمایت کون کررہا ہے۔ اسکی پہلی وجہ ہمارا ایٹمی طاقت بن جانا ہے عالمی مبصرین پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے اس کھیل کی اصل وجہ اس کے ایٹمی پروگرام کو قرار دیتے ہیں جو عالمی قوتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے اور وہ دہشت گردی کے ذریعے ان ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے کر اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہیں۔جبکہ دوسری وجہ بلوچستان میں موجود معدنی ذخائر اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کی مدد کرنا ہے۔ اگر پاکستان دہشتگردی پر قابو پالیتا ہے
تو یقینا پاکستان تیزی سے ترقی کرسکتا اور علاقے کے نام نہاد تھانیدار بھارت کو یہ منظور نہیں۔ ان تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے پاکستان کو پر امن نہ رہنے دیا جائے کیونکہ اسکے پیچھے امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے ، بلوچستان میں بھارت ، امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی سازشوں کے جال بچھائے ہوئے ہیں، دوسری طرف بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے۔
بھارت اور بھارتی لیڈروں کا واحدمقصدہے کہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔ اس مقصدکےلیے بھارت، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی شامل ہیں۔ ان میں سے بھارتی ایجنسی ْرا ْ اور امریکی ایجنسی‘سی آئی اے ْپاکستان میں دہشت گردوں کو اسلحہ اور مختلف ملکوں کی کرنسی فراہم کررہی ہیں۔
لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے میں ایم آئی 6‘ سی آئی اے اور موساد ملوث تھیں۔یہ امریکہ ہی ہے جو طالبان کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کررہا ہے جبکہ تحریک طالبان کے ایک لیڈر نے افغانستان میں واضع الفاظ میں یہ بتایا کہ بھارت اور افغانستان پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہے ہیں اور اپردیر میں جنرل ثناء اللہ خان نیازی، پشاور کے قصہ خوانی بازار اور چرچ پر حملے میں یہی دونوں ملک ملوث ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں ہونے والی اغوا کی وارداتوں میں ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کا ہاتھ ہے۔ بدقسمتی سے بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صحافت اور سیاست سمیت پاکستان کے تقریباً تمام شعبوں میں کچھ شخصیات ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔
ہمارے ذرائع ابلاغ بعض این جی اوز اور سیاستدان بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتوں میں ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت کے باوجود اس میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو ملوث کئے جارہے ہیں۔علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری لاپتہ افراد کیس میں سکیورٹی اداروں کے بارے جس طرح کے ریمارکس دیتے رہے ہیں وہ بھی دہشتگری بڑھنے کا سبب بننے۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی کچھ مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ طالبان کے کھلے حامی ہیں، اسکے علاوہ لال مسجد کا ملا عبدالعزیز اور کچھ صحافی جن میں خاصکراوریا مقبول جان اور جنگ کا انصار عباسی بھی طالبان کے خاص ہمدردوں میں شامل ہیں۔ یہ اسقدر شقی القلب ہیں کہ کسی نہ کسی طرح طالبان کی ہر دہشت گردی کو صیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سولہ دسمبر 2014ء کے المیے نے جہاں ایک طرف پورے ملک میں سوگ کی کیفیت طاری کر دی وہاں پوری قوم نے قومی اتحاد کا بے مثل مظاہرہ کیا۔بارہ جنوری بروز پیرآرمی پبلک اسکول کےبچوں نے اپنے اسکول کی جانب سفرکرتے ہوئے بہت ہی پرامن انداز سے دہشتگردوں کی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی، وہ اور اُنکے ہمراہ آئے ہوئے اُنکے والدین دہشتگردوں کو پیغام دئے رہے تھے کہ پاکستانی قوم دہشتگردی کا بھرپور مقابلہ کرئے گی اور انشااللہ بہت جلد نہ صرف دہشتگرد بلکہ اُنکے آقا اور پاکستان میں موجود اُنکے حامی جلد ہی نیست و نابود ہو جاینگے۔ پاکستان زندہ باد۔
تحریر : سید انور محمود