counter easy hit

شرجیل میمن صاحب ذرا سنیئے جناب

Sharjeel Memon

Sharjeel Memon

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
جی ہاں بس …! ہم تو جانیں ایک بات کہ کام ایک نہیں کرنا پر تسلیاں دے کر ٹال مٹول سے ہی کام کرکے لوگوں سے اپنی تعریفیں کراتے رہنا اپنا تو کام ہے خیراَب آتے ہیں اپنے آج کے اصل موضوع کی جانب توآج ہم اپنے اِس کالم کے ذریعے مخاطب ہیں اپنے صوبائی وزیربلدیات سندھ جناب شرجیل میمن صاحب سے تو سرجی…!عرض یہ ہے کہ بحیثیت صوبائی وزیربلدیات سندھ جناب شرجیل میمن صاحب سندھ کی سیاست اور عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے آ پ کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج تونہیں ہے مگر اِس کے باوجود بھی جناب ذرا …یہ بھی تو ٹھندے دل ودماغ سے سُن لیجئے کہ جناب…!!آج سلام ہے آپ کو اور آپ کی اِس شہرکراچی کو صاف ستھرارکھنے کے لئے جاری اِس صفائی مہم کو …آ ج جِسے بہت سے لوگ سب سے جُدا اورسب سے منفرداوراعلیٰ وبالا” صفائی مہم “کہہ رہے ہیں۔

مگر مجھے ایسے لوگوں کی دماغی حالت پرشک ہورہاہے کہ وہ ایک ایسی صفائی مہم کی تعریفوں کے پل باندھنے سے نہیں تھک رہے ہیں جس کے زوروشور سے جاری رہنے کے باوجودبھی جگہہ جگہہ گٹراُبلتے اور شہر کی گلی کوچوں میں قدِ آدمی سے بھی زیادہ کچرے کے اُونچے اُونچے انبارلگے نظرآرہے ہیں جنہیں دیکھ کر بے ساختہ منہ سے یہ نکل پڑتاہے کہ بھلایہ کیسی صفائی مہم ہے…؟؟ جس میں جابجاصفائی سے زیادہ گندگی اور غلاظت کے ہی ڈھیردکھائی دے رہے ہیں ایسے میں ، ہم آپ کی اِس صفائی مہم کو بہترین و اعلیٰ صفائی مہم کہنے والو کو پاگل ہی کہیں گے وہ اِس لئے کہ ارے جناب… پچھلے ایک ماہ سے شہرِ کراچی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہم سمیت بہت سے لوگ آپ کے بنائے گئے واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے شکایتی مرکزاور کمپلین آفس میں مسلسل فون پر فون کرکے یہ شکایت درج کروارہے رہیں اور اِنہیں انتہائی التجایہ اندازسے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ” جناب اِس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور اِسے ترجیحی بنیادوں پر حل کروائیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور فوری حل طلب مسئلہ ہے …کیوں کہ گزشتہ 50/60دِنوں سے لانڈھی نمبر 1ایریا37/Bکے علاقے میں گٹر کی مین لائینزبھری ہوئی ہیں جن کے بھرجانے کے باعث گٹرکا گندااورکالا بدبودارپانی نل کے پینے کے صاف پانی میں مِکس ہوکرآرہاہے، جس سے علاقہ مکینوں میں بہت سی پیٹ کی بیماریاں اور جلدی امراض پیداہورہے ہیں۔

پیپلزاِس مسئلے کو جلدحل کروائیں“ مگر افسوس ہے کہ جناب شرجیل میمن صاحب… !!آج یعنی کہ اِن سطورکے رقم کرنے تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوپایاہے جبکہ لانڈھی واٹراینڈسیوریج بورڈ آفس کے ذمہ داران روزایک نہیں کہانی سُنادیتے ہیں ” کہ آج میشن نہیں ہے… تو کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آ ج لیبر نہیں ہے،کبھی مشین ہوتی ہے… تو لیبرنہیں ہوتے اور جب لیبرہوتے ہیں تو مشین نہیں ہوتی اور جب لیبراور مشین دستیاب ہوتی ہے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آج آ پ کا کام نہیں ہوسکتاہے کیوں کہ آج فلاں علاقے کا نمبرہے کیوں کہ اِس علاقے کی سڑکوں اور گلیوں میں گٹرکا پانی بہہ رہاہے ہم پر اُوپرسے دباو¿ ہے ہمارے پاس لیبرنہیں ہے اگر ہے تو بہت کم مشین ایک ہے اور وہ بھی کبھی کام کرتی ہے اور کبھی کام نہیں کرتی اور اگرکسی روزمشین اور لیبردونوں دستیاب ہوتے ہیں تو یہ جواب دے کرتڑخادیاجاتاہے کہ آج ایم پی اے صاحبان کی خصوصی ہدایات ہیں کہ آج سب کام چھوڑکر پہلے اِن کی دی ہوئیں ہدایات پرکام کیاجائے پھر کہیں اور جایاجائے اور اِسی چکر میںدن تمام ہوجاتاہے اور ہمارگٹرکا گنداپانی پینے اور استعمال کرنے کا مسئلہ دب کررہ جاتاہے الغرض یہ کہ ذمہ داران اِس قسم کے حربے استعمال کرکے علاقہ مکینوں کو گٹرکا گندااور بدبودارپانی استعمال کرنے پر مجبورکئے ہوئے ہیں لانڈھی ایک غریب اور محنت کش ڈیلی مزدوری کرکے روزکمانے اور روزکھانے والوں کا علاقہ ہے آخرکب تک علاقہ مکین پانی جیسی آسانی سے مفت دستیاب شئے کو بھی خریدکر پیتے رہیں گے برائے کرم شرجیل میمن صاحب…!! علاقہ مکینوں کے اِس مسئلے کو بلاکسی تعطل اور تعطیل کے جلد حل کروائیںمعاف کیجئے گا ہمیں یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آپ کی سندھ کی حکومت میں غریبوں کوکچھ ریلیف ملے یانہ ملے مگر ارے جناب…!! آج آپ کی حکومت میں آپ کی ذراسی توجہ اور محنت سے لانڈھی کے علاقے کے غریب رہائشیوں کو کم ازکم پینے کا پانی تو دستیاب ہو سکے۔

ہاں جناب شرجیل میمن صاحب …!!ایک کام اور کیجئے گایہ مسئلہ حل کروانے کے بعد کم ازکم اُن ذمہ داران سے یہ ضرورپوچھیئے گاکہ اِس کام کی تاخیرکی اصل وجہ کیاتھی …؟؟اور بہانے بازیوں اور ٹال مٹول سے کیوں اور کس لئے کام لیاگیا..؟؟آپ کی اِس طرح بازپُرس سے بہت سے مسائل جلدحل ہوجائیں گے اور پھرہم جیسے کسی کالم نویس یا میڈیاپرسن کو کچھ لکھنے اور کچھ کہنے کی زحمت بھی نہیں ہوگی۔ بہرحال بس…ہم تو جانیں ایک بات… کام ایک نہیں کرناپرتسلیاں سب کے لئے..یہ ہمارے معاشرے کا سمبل بن گیاہے جبکہ اِس سے اِنکارنہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں کسی کے دماغ میں اپنی اچھی بات کو ٹھوسنایا بیٹھانا یا اپنے سامنے والے کو کسی بھی طریقے سے کسی بھی منفی سوچ و عمل کی جانب راغب کرنا…..ؓ¾یقیناَ کسی سے پیسے مانگنے یا اُس کی زندگی چھین لینے سے بھی زیادہ مشکل نہیں رہا ہے ہمارے یہاں جوبھی جو کام کررہاہے اُسے وہ کام آسان لگتاہے خواہ اُس کا کام منفی نوعیت کا ہے یا مثبت سب ہی خوش ہیں آج ہمارااور آپ کا یہ معاشرہ جس میں ہم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث اپنے تمام بنیادی حقوق اور سہولیاتِ زندگی سے محروم ہیں تووہیں ہم گھٹ گھٹ کر سانس لے کربھی کیسے زندہ ہیں..؟؟

اِس پر ہم خود بھی حیران ہیں تواَب ایسے میں یہ کیوں نا ثابت ہوکہ دنیا کا یہ وہ عجوبہ ہے جس پر دنیابھی حیران و پریشان ہے کہ یہ کائنات کا کیساعجیب وغریب مُلک اور معاشرہ ہے ..؟؟جس کے لوگ اپنے بنیادی حقوق اور تمام تر جدیدوبہترین سہولیات زندگی سے محروم رہ کر بھی کیسے زندہ ہیں…؟؟ اور اِس پر عجب یہ بھی کہ ہمارے دیس کے لوگ تمام تر محرومیوں کے باوجود بھی دنیا میں انقلاب کی کمان سنبھالنے کو بھی بیتاب ہیں… اگرچہ …!!ہمارے معاشرے اور مُلک کے یہ لوگ جو اپنے تمام بنیادی اِنسانی حقوق اور زندگی گزارنے والی بہترین سہولیات زندگی سے محروم رہ کربھی دنیائے عالم کے انقلاب کی کمان سنبھالنے کو بیتاب ہیں اور اِس پراِس سے بھی اِنکارنہیں کہ آج ان میں وہی لوگ سُکھ اور چین کی زندگی گزاررہے ہیں جنہیں چرب زبانی اور روپ بدلنے میں مہارت ہے ایسے ہی لوگ اور افراد ہمارے معاشرے میں کامیاب بلکہ کامیاب ترین لوگ تصورکئے جاتے ہیں کیوں کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے اپناروپ ایسے بدلتے ہیں جیسے دنیاکے امراءروزاپنے پیروں کی چپل اور کپڑے بدلتے ہیںآج ایسے لوگوں اور گرہوں اور ٹولوں اور طبقوں کے نزدیک ہمارے معاشرے کا ہر مظلوم و بے کس اور مجبور شخص خواہ اِس کا تعلق کسی بھی جنس سے ہواُس کا کاندھااور سرایسے لوگوں کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں جنہیں چرب زبانی اور مظلوموں کو سبزباغ دکھانے اور وعدے کرکے مکرجانے کی عادت ہے اور اپناکام نکل جانے کے بعد یہی چرب زبان غریبوں اور مظلوموں کے مسائل حل نہ کرنے کے لئے خاطر ایساچپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں کہ مظلوم دُھائی کرتے رہ جاتے ہیں مگر کوئی اِن کے مسائل حل کرنے والانہیں ہوتا ہے۔

ہمارے دیس اور معاشرے میں ایسے چرب زبان اور بہروپئے لوگوں کی مثال توشیخ سعدی ؒ کی حکایت کے اُس خوش اخلاق مصریِ فقیر جیسی ہے جس نے لوگوں کو چرب زبانی اور بہروپئے کا رنگ ڈھنگ ڈھالنے کے بعدخود کویکدم دوسرے اندازسے پیش کیا اور اُس چرب زبان بہروپئے خوش اخلاق مصری فقیرنے مصرمیں ایک طویل عرصے تک چپ کا روزہ رکھ لیالوگ دوردراز سے فیض یاب ہونے کے لئے اِس کے پاس آتے اور اِس کے گردایسے جمگھٹالگ جاتاجیسے شمع کے گردپروانے ہوتے ہیں بالاآخرایک روزاِس بہروپئے کے دل میں یہ بات آئی کہ اِنسان دراصل اپنی زبان کے نیچے چھپاہواہے کیونکہ زبان کی خوش کلامی سے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور اگرمیں اِسی طرح چپ رہاتو کوئی کیاجانے گاکہ بڑادانشورہے جیسے ہی اِس بہروپئے کے دل میں یہ خیال آیااور وہ جب بولاتو اِس کا بھانڈابیچ چوراہے پھوٹ گیا،تب ہرکسی کو معلوم ہوگیاکہ وہ بہت بڑاجاہل ہے اِس کے عقیدت مند اِس سے متنفرہوگئے اور اِس کی ہوااُکھڑگئی لہذااِس نے وہاں سے سفرکرجانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی لیکن جاتے ہوئے مسجدکی محراب پر یہ بات لکھ گیاکہ میںاگرآئینے میں اپنی شکل دیکھ لیتاتو منہ سے نقاب نہ اُٹھاتایعنی بول کر اپنی جہالت ظاہرنہ کرتا میں نے نقاب اُسی زعم میں اُٹھادیاکہ میں بڑاخوبصورت ہوں حالانکہ معاملہ اِس کے برعکس تھایعنی مجھے خیال تھاکہ میں بڑادانشورہوں بولوں گاتو موتی رولوں گاپر ہوایہ کہ بولاتو اپنی جہالت کا تھیلاکھولا“ ….مصری فقیرکو تو اپنی خاموشی کو توڑتے ہی یہ احساس ہوگیاکہ یہ لوگوں کو اپنی خاموشی سے تو بے وقوف بنا تارہامگرجب اپنی اِس عادت سے خود ہی بیزار ہوااور خود کو لوگوں کے سامنے دانشوربناکر پیش کرناچاہا توپھر خود ہی ذلیل وخوارہوایہی بات حضرت شیخ سعدی ؒ نے اپنی حکایت کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ ” جاہل کے لئے خاموش رہنازیادہ مناسب ہے کیونکہ اِس سے اِس کی جہالت چھپی رہتی ہے۔

آج اگر ہمارے چرب زبان اور بہروپئے حکمران ، سیاستدان ، قومی اداروں کے سربراہان اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پربیٹھے بہروپئے مگرخوش اخلاق جاہل لوگ اَب جس طرح سے بھی قوم کوبے وقوف بنانا چاہیںتواَب قوم اِن کی کسی بھی چرب زبانی ،روپ بدل بدل کر سامنے آنے والے کرداروںاور اِن کی بے وقوف بنانے والی خاموشی سے بھی اِن کے پیچھے نہیں بھاگیں گے اور نہ ہی اَب قوم اِیسے لوگوں کے گردجمگھٹالگاکر اِن کے گُن گائے گی بلکہ اَب بس …ہم تو جانیں ایک بات ….وہ یہ کہ کام توکرنانہیں ہے تسلیاں سب کے لئے ہیں ایسے میں قوم اپنے چرب زبان و بہروپئے اور چپ کا روزہ رکھ کراِسے بے وقوف بنانے والے اپنے سیاستدانوں، حکمرانوں،قومی اداروں کے سربراہان اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر چہرے بدل بدل کر آنے والے مختلف فطرت اور مختلف اقسام اور ہرطر ح کی بولیاں بولنے والے چرب زبانوں ، بہروپیوں اور چُپ کا روزہ رکھنے کے بعدلب کھولنے اور زبانین ہلانے والے اپنے جاہلوں کو پہنچان چکی ہے۔اَب قوم اپنے مشاہدات کے بعد حاصل ہونے والے تجربات کا فیصلہ مُلک میں اگلے سالوں میں ہونے والے جنرل الیکشن میں کرکے سب کو حیران و پریشان کردے گی بس وقت اور اُس گھڑی کا انتظارہے جب پاکستانی قوم اپنی پوری قوت سے کسی بھی شکل میں سامنے آنے والے چرب زبانوں بہروپیوںاور دیدہ ودانستہ چپ کاروزہ رکھ کر قوم کوبے وقوف بنانے والے ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ”بس…ہم توجانیںایک بات…..کام توایک نہیں کرناپرتسلیاں سب کے لئے “ اِن لوگوں کاسیاسی کیرئیرختم کردے گی.(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com