لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب پاور ڈویلپمنت کمپنی اور آشیانہ سکیم سکینڈل میں پیشی کے موقع پر نیب کی تحقیقاتی ٹیم نے شہباز شریف سے 19 سوالات کئے، سابق وزیر اعلیٰ نے کمپیز میں غیر قانونی اقدامات اور مبینہ کرپشن کا ملبہ سابق بیورو کریسی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز پر ڈال دیا۔
ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ اگر میں کرپشن کی ہوتی تو میرے اکاؤنٹس سے پیسی نکلتے ، میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی ، جنہوں نے کچھ کیا پیسے ان سے نکل رہے ہیں، شہباز شریف نے دوران تفتیش کہا کہ چیف سیکرٹری پنجاب کی زمہ داری تھی کہ معاملات کو مانیٹر کرتے اور قانونی طور پر درست فائلیں اور سمریاں میرے پاس بھجواتے، سیکرٹری ٹو سی ایم نے بھی میرے پاس خلاف قانون سمریاں کیوں بھجوائیں؟۔ شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے میرٹ پر کام کیا، اچھے کام کئے، لیکن پشاور میٹرو بس کو بھی دیکھیں وہاں 40 ارب کا پراجیکٹ 80 ارب تک پہنچ گیا، لیکن کئی ماہ گزر گئے مکمل نہ ہوا۔ شہباز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کے سی اے او کی خلاف ضابطہ تقرری اور ٹھیکوں میں مبینہ ضابطگیاں جبکہ آشیانہ اقبال سکینڈل میں میں الزام تھا کہ انہوں نے میرٹ پر آنے والی کمپنی لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کر کے کاسا ڈویلپرز جو تین کمپنیوں بسم اللہ انجینئرنگ سروسز، سپارکو اور جائنہ گروپ کا جوائنٹ وینچر ہے کو ٹھیکہ دیا، ٹھیکہ منسوخ ہونے سے حکومت کو 64 کروڑ 50 لاکھ روہے
سے زائد کا نقصان پہنچا۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز جب شہباز شریف پیش ہوئے تو انکے ساتھ ان کا پروٹوکول نہ تھا اور ن کی گاڑی رش میں بھی دس منٹ تک پھنسی رہی ، وہ عام شہری کی طور پر ماڈل ٹاؤن گھر سے نکلے اور نیب میں پیش ہونے کے بعد گھر واپس گئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ کے احکامات پر کمپنیز میں غیر قانونی اقدامات ہوئے ، جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ میں نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس سے خزانے کو نقصان پہنچا ہو، نیب نے سوال کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ منسوخ کرایا، جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ مجھے میرے سیکرٹری نے سمیری دی ٹھیکہ منسوخ کرنا ہے جس پر ٹھیکہ منسوخ کیا گیا اور ٹھیکہ متعلقہ بورڈ نے منسوخ کیا۔ پنجاب کمپنیز میں ہونے والی غیر قانونی اقدامات سے متعلقہ بورڈ دسے پوچھا جائے، جنہوں نے انٹرویو کر کے افسران کو تعنیات کیا ان کی زمہ داری تھی کہ وہ ا ن کی کر کرد گی چیک کرتے میں نے سب سے پہلے کمپنیوں کے آڈٹ کا حکم دیا اور آڈٹ کرایا۔