لاہور( ویب ڈیسک) سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے جب قطر کی ایئر ایمبولینس سے پرواز بھری تو سب سے نمایاں شخصیت شہباز شریف تھے۔اس وقت اُن کی پھرتیاں کمال حد تک دلچسپ اور قابل توجہ تھیں۔یوں تو لندن روانگی سے لے کر اب تک میاں صاحب کی
بیماری اور ان کی صحت سے متعلق بُلیٹن سنانے والوں کے پاس وقت ہے اور نہ ہی میڈیا اور پی ٹی آئی اب ان رپورٹس میں کوئی خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنے تازہ ترین کالم میں عاصمہ شیرازی لکھتی ہیں کہ تو اُڑ جا بھولیا پنچھیا‘ کی تان لگاتی تحریک انصاف اور کپتان اُس دن کے بعد سے ’این آر او‘ نہیں دوں گا کی گردان بھی بھول چکے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے کُل سترہ ماہ میں پندرہ ماہ صرف یہی گردان سُننے کو ملی کہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ نہیں جانے دوں گا۔۔۔ دیکھ لوں گا۔۔۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا۔
میری اور کیپٹن نوید کی گندی ویڈیو : دراصل ہوا یہ تھا کہ ۔۔۔۔ اداکارہ میرا نے خود ہی سب کچھ بتا دیا
۔۔ چوروں اور ڈاکووں کو سبق سکھاؤں گا۔۔۔ مگر اب کپتان بھولے سے این آر او کا نام تک نہیں لیتے۔میاں نواز شریف کی خاندان کے ساتھ ریستوران میں کھانا کھانے کی تصویر نے پی ٹی آئی میں ہلچل مچائی تو یاسمین راشد صاحبہ تھوڑی دیر کو غرائیں، واوڈا صاحب نے بُوٹ ڈرامہ کیا، نہ جانے کس کو سُنانے اور کس کو دکھانے کے لیے، مگر نتائج واوڈا صاحب کو ہی بھگتنے پڑیں گے۔ہو سکتا ہے وہ سکرپٹ سے کچھ زیادہ ایکٹنگ کر گئے ہوں مگر یہ بات تو صاف ہے کہ واوڈا صاحب نے اپنی قیادت کو قطعی مایوس نہیں کیا۔بہر حال بات ہو رہی ہے شہباز شریف صاحب کی۔ جس دن سے وہ لندن پہنچے ہیں اُن کی ٹوپیوں کی تعداد اور ان کا انداز کسی کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ترچھا ہیٹ پہنا تو اتحادیوں میں پھوٹ پڑ گئی، کاؤ بوائز والا ہیٹ سر پر سجایا تو پنجاب پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک سامنے آ گیا اور اب تو خدا خیر ہی کرے کہ جناح کیپ سر پر سجائے وہ جانے کس کو کیا سمجھا رہے ہیں؟اُدھر کپتان اپنی جماعت کی آستینوں میں چھپے سانپ ڈھونڈ رہے ہیں۔
جس تیزی کے ساتھ وہ اپنی ہی جماعت میں آپریشن کلین اپ کر رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ آخر میں صرف خود ہی بچیں گے۔عاطف خان، شہرام تراکئی اور شکیل احمد کو ہٹایا جانا غیر معمولی اور انتہائی اہم اقدام ہے۔ محض پارٹی اختلافات کی بنیاد پر انھیں عہدوں سے اچانک ہٹایا نہیں جا سکتا۔بہرحال یہ بلی بھی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی تاہم یہ بات تو مزید پختہ ہو گئی کہ حکومت میں سب اچھا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو بیرونی خطرات تو ہیں ہی لیکن اندرونی چیلنجز بحرانی کیفیت اختیار کر گئے ہیں۔پارٹی اور اتحادیوں کے جھگڑے میں وزیراعظم بھول نہ جائیں کہ انھیں ایک بار پھر آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفیکشن جاری کرنا ہے اور اس بار کسی غلطی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔’ن‘ اور ’اسٹبلشمنٹ‘ میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی انحطاط اور بڑھتی ہوئی بے یقینی میں ن اور پیپلز پارٹی نظام کو ناکامی سے بچانے کے لیے کوئی این آر او عنایت کر دیں۔کیونکہ جس حالت اور کیفیت میں گورننس پہنچ چکی ہے ممکن نہیں کہ ایک قلیل المدت قومی حکومت تشکیل دیے بغیر معاملات آگے بڑھ سکیں، ایسی قلیل المدت حکومت جو محض انتخابی اصلاحات اور معاشی ایجنڈے کا رُخ طے کرے۔جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو اس صورت حال میں صرف شہباز شریف صاحب کی ٹوپیوں پر نظر رکھیے، اُن کے ہیٹ سے کسی بھی وقت کبوتر برآمد ہو سکتا ہے۔