پیرس ( نمائندہ خصوصی) پاکستان تحریک انصاف فرانس کے وائس چیئرمین شیخ نعمت اللہ نے کہا ہے کہ جہاں سرکار سید الشہداء (ع) کے لئے خود رسالتمآب(ص) نے متعدد احادیث ارشاد فرمائی وہیں حضرت کی ایک مشہور حدیث یہ بھی ہے: ان الحسین مصباح الھدٰی و سفینۃ النجاۃ۔ یعنی حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
اس مبارک حدیث کو دیکھنے کے بعد ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام یا اہل بیت(ع) کے لئے اس تعبیر «سفینۃ» یعنی کشتی کو کیوں استعمال کیا گیا؟ اور اس کی جگہ اور کوئی تعبیر بھی ہوسکتی تھی؟
قارئین! جب بھی کشتی کا تصور ہوتا ہے تو ہمارے سامنے دریا موجیں مارنے لگتا ہے۔اور ساتھ ہی ہمیں حضرت نوح علیہ السلام کی وہ کشتی یاد آجاتی ہے جو آپ نے طوفان کے تھپیڑوں سے امت کو بچانے کے لئے بنائی تھی۔ اب شاید آپ کے اذہان کچھ قریب ہوئے ہوں!
سرکار سید الشہداء کے لئے بہت سی تعبریں احادیث میں منقول ہیں لیکن کشتی کی بات ہی کچھ اور ہے در حقیقت رسول اللہ(ص) ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آسمانی،زمینی،مادی اور معنوی بلاؤں کی شدت طوفان نوح جیسی بھی ہوجائیں تو بلا شک وہ افراد ساحل نجات تک پہونچ جائیں گے جو امام حسین(ع) کی کشتی میں سوار ہوجائیں گے۔اور یہی وجہ ہے کہ جب یزیدیت کی شکل میں بے دینی اور گمراہی کا طوفان اٹھا تو حسین(ع) نے نجات کی کشتی بن کر اس امت کو بچالیا ،ورنہ نہ جانے آج اسلام کہاں ہوتا اور اس دین کی کیا شکل بن چکی ہوتی