سعودی عرب میں جن درجنوں افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا ان میں شیخ نمر النمر بھی شامل تھے جو سعودی حکومت کے شدید ناقدین میں سے تھے۔
شیخ نمر سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف کے ایک گاؤں میں سنہ 1959 یا 1960 میں پیدا ہوئے اور پھر کئی سالوں تک تہران اور شام میں زیرِتعلیم رہے۔
’آلِ سعود شیعوں اور سنّیوں میں خانہ جنگی چاہتے ہیں‘
ان کی سعودی عرب واپسی سنہ 1994 میں ہوئی جس کے بعد وہ جلد ہی مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنے خیالات کی وجہ سے سعودی خفیہ اداروں کی نظر میں آ گئے۔
الجزیرہ کے مطابق انھیں سنہ 2012 میں اپنی آخری گرفتاری سے قبل بھی دو مرتبہ کچھ دنوں کے لیے سنہ 2004 اور سنہ 2006 میں حراست میں لیا گیا تھا۔
سنہ 2012 سے قبل شیخ نمر کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا اور وہ سعودی عرب میں قومی سطح کے رہنما بن چکے تھے۔
قطیف میں اپنی گرفتاری سے پہلے جب وہ ایک کار میں جا رہے تھے تو ان کا پیچھا کرنے والوں نے ان کی گاڑی پر شدید فائرنگ کی جس دوران ان کی ٹانگ میں چار گولیاں لگیں۔ اس کے بعد تین دنوں میں مشرقی سعودی عرب میں جو مظاہرے ہوئے ان میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شیخ نمر صوبہ قطیف میں سعودی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پیش پیش رہے اور کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے علاوہ بحرین میں بھی وہ شیعہ نوجوانوں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ دونوں ممالک میں سلفی مکتبۂ فکر کے حکمرانوں کے شدید ناقد تھے۔
بحرین میں جب حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی تو وہاں پر سعودی عرب کے فوجیوں کو حالات پر قابو کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
گذشتہ دہائی کے دوران شیخ نمر کو کئی مرتبہ سعودی عرب میں گرفتار کیا جا چکا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
سعودی حکام نے شیخ نمر کے خاندان والوں کو اکتوبر سنہ 2014 میں تصدیق کر دی تھی کہ انھیں دیگر جرائم کے علاوہ مملکت کے معاملات میں ’بیرونی مداخلت‘ کی کوشش کرنے میں سزائے موت دی جائے گی۔
شیخ نمر نے اپنے خلاف لگائے جانے والے سیاسی الزمات سے کبھی انکار نہیں کیا، تاہم ان کے حامی ہمیشہ سے کہتے چلے آئے ہیں کہ شیخ نمر نے کبھی تشدد کو فروغ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ پرامن احتجاج کی حمایت کی۔
سنہ 2011 میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ نمر کا کہنا تھا کہ وہ ’ہتھیاروں کی بجائے حکام کے خلاف عوام کی دھاڑ‘ کے حامی ہیں کیونکہ ’ لفظ کا ہتھیار گولی سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ حکام ہتھیاروں کی لڑائی سے مالی مفاد حاصل کرتے ہیں۔‘
شیخ نمر کو ’آیت اللہ‘ کا لقب بھی دیا گیا تھا۔
جب مارچ 2013 میں ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو استغاثہ کا مطالبہ تھا کہ انھیں ’مصلوب‘ کیا جائے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کے سر قلم کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو عوامی مقامات پر لٹکانے کی روایت پائی جاتی ہے۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا کہ عدالت میں انھیں اپنے دفاع کی آزادی نہیں دی جا رہی۔ تنظیموں کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد بھی شیخ نمر کو طبی امداد نہیں دی جا رہی تھی۔
برطانوی اخبار گارڈین کا کہنا ہے کہ جب ان کی حراست کے دوران ہی سنہ 2012 میں ان کی اہلیہ مونا جبیر الشیریانی نیویارک کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں تو ان کے لیے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
وکی لیکس نے انکشاف کیا تھا کہ سنہ 2008 میں شیخ نمر نے امریکی حکام سے بھی ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے کوشش کی تھی کہ انھیں امریکہ مخالف نہ سمجھا جائے اور نہ ہی انہیں ایران کا حامی سمجھا جائے۔