تحریر : ایم ایم علی
ہمارے ملک کی دو شخصیات ایسی ہیں جو خبروں میں رہنے کا ہنر خوب جانتی ہیں، ان میں سے ایک تو ہیں معروف ادکارہ میرا جو پہلے تو اپنی گلابی انگلش کی وجہ سے خبروں میں رہتی تھیں اور آج کل اپنے سیکنڈلزاور اپنے رنگین ارشادات کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں،اور دوسری معروف شخصیت ہیں سنیئر سیاستدان شیخ رشید صاحب جو اپنی سیاسی پیشن گوئیوں کی وجہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
قارئین! اگر بات کی جائے ملکی سیاست کی تو سیاسی شطرنج پر شیخ رشید ہی وہ مہرہ ہے جو باقی تمام سیاسی مہروں کو مات دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔شیخ رشید 6 نومبر 1950ء کو راولپنڈی میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔شیخ صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ہی سیاست میں قدم رکھا،اپنے کالج کی طلبہ یونین کے صدر بھی رہے اور صدر ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی پیش پیش رہے ۔ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد کچھ عرصہ تحریک استقلال میں رہے 1984 ء میں بلدیاتی کونسل کے رکن بھی بنے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بنے 1988ء میں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما جنرل ٹکا خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔1990ئ1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے ۔1997ء میں میاں نواز شریف کے دور میں مشیر اطلاعات و نشریات،وزیر صنعت اور وزیر سیاحت و ثقافت رہے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں غیر قانونی کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ،لیکن چند ماہ بعد ان کو رہا کر دیا گیا۔ 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوگئے 2002ء کے عام انتخابات میں شیخ صاحب نے بطور آزاد امیدوار راولپنڈی کے دو حلقوں سے حصہ لیا اور دونوں حلقوں میں کامیابی حاصل کی ،اس انتخابی مہم کے دوران شیخ صاحب خود کو مسلم لیگ (ن) کا حمایت یافتہ امیدوار ظاہر کرتے رہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس الیکشن کمپین کے دوران یہ بھی کہتے رہے کے یہ دونوں حلقے میرے پاس نواز شریف کی امانت ہیں ،لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے اور پہلے وزیر اطلات و نشریات اور پھر وزیر ریلوے بنے۔
پرویز مشرف کے ہر اچھے ،برے اقدامات کا بھر پور انداز میں دفاع کرتے رہے ان دنوں ان کا شمار پرویز مشرف کے مداح سرائوں میں ہوتا تھا۔2008 ء کے عام انتخابات میں سنیئر سیاستدان جاوید ہاشمی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے ،اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ق) کو بھی الوداع کہہ دیا اور عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی نئی جماعت قائم کر لی 2010ء میں ایک بار پھر ضمنی انتخابات میں حصہ لیا لیکن مسلم لیگ (ن) کے شکیل اعوان کے ہاتھوں ایک بار پھر شکست سے دوچار ہو نا پڑا ،حالانکہ اس ضمنی الیکشن سے پہلے وہ یہ دعوی کرتے رہے کہ یہ ان کا آخری الیکشن اور اس کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں گے ،لیکن ہارنے بعد بھی وہ سیاست میں فعال رہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت سے قلم دوات کے نشان پر وہ ایک د فعہ پھر راولپنڈی کے حلقہ این اے54سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ۔جارحانہ بیان بازی، شعلہ بیان تقریریں اور سیاسی پیشن گوئیاں ان کی وجہ شہرت بنی ،ان کی سیاسی پیشنگوئیاں تو کم و بیشتر ہی سچ ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی پیشنگوئیاں بالکل ہی سچ ثابت نہیں ہوتیں ،کبھی کبھار تکا لگ بھی جاتا ہے۔
شیخ صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جس کی حمائت کرتے ہیں پھر اس کی مداح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ،حالانکہ شیخ صاحب عمران خان کے سخت ناقد ، رہے ہیں لیکن کل کے ناقد شیخ صاحب کا شمارآج کل خان صاحب کے بڑے مداح سرا ہوںمیں ہوتا ہے ، آج کل ان کا حدف تنقید میاںنواز شریف ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب شیخ صاحب نواز شریف کی تعریفوں کے پُل باندھتے نہ تھکتے تھے نواز شریف کے بُرے وقت میں ان کا ساتھ چھوڑنے والے شیخ صاحب نے پرویز مشرف پر بُرا وقت آتے ہی ان کی مدح سرائی بھی چھوڑ دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خان صاحب کی مداح سرائی کب تک جاری رکھتے ہیں۔
پچھلے سال کی سب سے بڑ ی پیشنگوئی کرتے ہوئے شیخ صاحب نے فرمایا تھا کہ عید قربان سے پہلے قربانی ہو گی ان کا اشارہ یقینا موجودہ حکومت کی طرف تھا مگر تاحال تو حکومت قائم ہے اور جب ان سے عید سے پہلے قربانی کی پیشن گوئی کے بارے میں پو چھا جا تا ہے تو شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو حکمرانوںکی عزت قربان ہو چکی ہے ،شیخ صاحب موجودہ حکومت کے جلد خاتمے کی کئی بار پیشن گوئی کر چکے ہیں پچھلے سال کی طرح اس بار بھی شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ عید کے بعد عید ہوگی اور لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے میں تو شیخ صاحب نے جوش خطابت میں موجودہ حکومت کے خاتمے کی حتمی تاریخ ہی دے ڈالی ان کے بقول حکومت 10ستمبر سے پہلے گھر چلی جائے گی اب دیکھیں کہ ان کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی ہے کہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے۔
قار ئین کرام! شیخ صاحب کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ فوج کے بہت قریب ہیں اور ان کے پاس بہت سی پو شیدہ خبر یں ہوتی ہیں اور شیخ صاحب خود بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جیسے ان کے پاس پوشیدہ خبروں کا خزانہ ہے ،لیکن (یارلوگوں ) کا خیال ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ صرف میڈیا میں رہنے کیلئے ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جس سے یہ تاثر مل سکے کہ وہ بہت سی پو شیدہ خبرو ںسے با خبر ہیں شیخ صاحب کی پیشن گوئیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔
شاید شیخ صاحب اپنی ذاتی خواہش کو بھی پیشن گوئی کی شکل دے دیتے ہیں یا پھر شاید میڈیا والے ہی شیخ صاحب کی ہر بات کو پیشن گوئی سمجھ لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ صاحب ایک منجھے ہو ئے سیاست دان ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں شیخ صاحب نظریات سے زیادہ ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست کرتے ہیں ۔بدلتے ہو ئے ہوا کے رخ کے ساتھ ساتھ ان کی پیشن گوئیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔
شیخ صاحب نقاد بھی بہت اعلی درجے کہ ہیں اور جب کسی کی خوش آمد کرنے پہ آتے ہیں تو اس میں بھی ان کوئی ثانی نہیں، شیخ صاحب کی پیشن گوئیوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ان کی پیشنگوئیاں کہاں تک سچ ثابت ہوں گی ،کب کس کی عیدہو گی اور شیخ رشید کا سیاسی علم نجوم کب اپنا اثر دکھائے گااس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ بہر حال (یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد عید بھی آئے گی اور با خیر و عافیت گذر جائے گی مگر پھر شیخ صاحب یہ کہتے ہو ئے دکھائی دیں گے کہ انہوں نے تو عید قربان کی بات کی تھی۔
تحریر : ایم ایم علی