تحریر : حاجی زاہد حسین خان
سن 1962ء جب گیارہ سال کی عمر میں میں نے پرائمری پاس کی تب میںنے اپنے والدین سے ضد کی کہ اب میں جامع تعلیم القرآن پلندری میں پڑھوں گا۔ چونکہ ایک سال قبل میرے چچا قاری محمد اسحق صاحب اس مدرسے میں داخلہ لے چکے تھے۔
اپنے والدین کا میں اکلوتا بیٹا تھا۔ انکی خواہش تھی کہ میں سکول کالج میں اپنی تعلیم جاری رکھوں رشتہ داربھی راضی نہ تھے۔ کہ یہ دیو بندی وہابیوں کا مدرسہ ہے ہمارا بیٹا وہابی بن جائے گا۔ مگر میںاپنی ضب پر قائم رہا اور مدرسے میں داخلہ لے لیا اتفاقاً ٹھیک ایک سال بعد رمضان کی نماز تراویح میں اپنے گائوں کی مسجد میں جب چند پارے حفظ کردہ قرآن سنایا تو وہی ہمارے رشتہ دار اور والد محترم عش عش کر اٹھے ۔ قارئین 70کی یہ دہاوہ زمانہ تھا خطہ بھر میں جاہلیت کا دور دوراہ تھا۔
نیم صوفیوں اور نیم ملائوں کا چلن عام تھا ہر علاقے ہرگائوں میں توہم پرستی پیر پرستی خانقائوں قبروں کی پوجا گیری کا رواج عام تھا۔ عرس میلے ٹھیلے جہاں ناچ گانا شعروشاعری کا چلن عام تھاننگے سر اور ننگے پائوں ہماری مائوں بہنوں کے زیارات پر چڑھاوے ملائوں کے گھر جمعرات جمعہ کا کھانا پہنچایا جاتا انکے بقول جمعرات کی رات ہر گھر کے مرحومین کی روحیں ہر مکان نے بنیرے سے جھانکا کرتی ہیں۔ درخت کی جڑوں کے نیچے سے جوان بے اولاد بچیاں رات کے اندھیرے میں نکلا کرتی ہیں۔
ہر بیساکھی پر پھلدار درخت پر گوبر لگایا جاتا قبروں پر دیے جلائے جاتے اور شب راتوں کو عبادت کے بجائے مشالیں جلائی جاتیں تسبح دھاگے جادو ٹونے اور لال کتابیں جن سے فال اور غیب کا علم بتایا جاتا تب خطے اور پاکستان کے دوسرے مدارس دینیہ کی طرح ہماری پونچھ سدہنوتی کا واحد یہ ادارہ تعلیم القرآن پلندری علوم دینیہ کا نور پھیلانے لگا جس کے مہتمم حضرت مولنا شیخ الحدیث محمد یوسف رحمة اللہ علیہ تھے۔ ان کی سرکردگی میں درجن بھر اساتذہ علم کی روشنی پھیلانے لگے۔ اس وقت کے حضرت مولنا محمد یونس ہزاروی توحید پر جب درس دیتے تو سامعین کی ہر آنکھ پر نم ہو جاتی اس طرح دوسرے اساتذہ کوئی صڑف و نحو پڑھاتا تو کوئی فقہ او ر بخاری کا درس دیتا۔
حفظ قرآن میں ناظرہ حافظ فاضل صاحب پڑھاتے تو قرآت قاری محمد حنیف صاحب تھوراڑوی پڑھاتے ۔ ہم قاری حنیف صاحب کے شاگرد خاص تھے اور ہمارے ساتھ قاری محمد اسحق ، قاری عبدالرحیم ، قاری عبدالقیوم ، قاری محمد قاسم اور مفتی محمد غوث اور ان کے بھائی محمد یعقوب مرحوم سب ہم جولی ہم رکاب رہے ۔ حضرت شیخ خود دورہ حدیث پڑھاتے انکے انتظام میں مدرسہ بڑا منظم تھا۔ اس وقت ہماری رہائش سرائے اور اوپر کچے کمروں میں ہوتی جن کی چھتیں کچی ہوتیں ہمارے ساتھ ساتھ سرحد پشاور اور افغانستان سے آئے طالب علم بھی علم کی پیاس بجھاتے اور ساتھ ساتھ جنات بھی حضرت شیخ کو اور انکے ساتھی حضرت مولنا محمد یوسف المعروف مولنا ثانی رحمة اللہ جو اس وقت یہاں موجود تھے کو اس مدرسے میں جنات کا علم تھا ایک دن بعد نماز عصر ایک لڑکے نے کسی جن طالب علم سے شرارت کر دی تب جن نے کمرے کی چھت کی بالی اس کے کندھے پر رکھ دی۔
اس کی جب چیخیں نکلیں تو حضرت شیخ کے ساتھ ہم سب وہاں پہنچے شیخ صاحب نے اس جن کو ڈانٹا تب ہمارے ساتھی طالب علم کی جان چھوٹی ایک مرتبہ ہمارے گائوں میں ایک عورت کو جن کا دورہ پڑا کئی آدمی اسے قابو نہ کر سکے اتفاقاً گائوں میں چورہ شریف کے پیر صاحب بھی موجود تھے انہیں لایا گیا مگر وہ جن ان سے بھی قابو نہ ہوا۔ جن نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا پیر صاحب آپ باعزت چلے جائیں ورنہ میں حضرت مولنا محمد یوسف کا شاگرد ہوں تب ایک آدمی نے شیخ صاحب کی خدمت میں جا کر حاضر ہوا واقعہ سنایا حضرت نے ایک پرچی پر کچھ لکھا پرچی اس عورت کو دی گئی تب وہ جن آرام سے اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ قارئین حضرت شیخ ایک مدرس اور مولوی نہیں تھے وہ ایک کامل ولی اللہ بھی تھے۔ جس کے سر پر وہ شفقت کا ہاتھ رکھ دیتے خوش ہو جاتے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ظہر کی نماز سے قبل جب وہ درس دیتے تو اکثر جذبات میں آکر ان کا چہرہ لال سرخ ہو جاتا جلالیت آجاتی کوئی آنکھ اٹھا کر ان کو نہ دیکھ سکتا۔
مدرسے کا انتظام اور انصرام چلانے میں انکے ساتھی مجلس شورایٰ میں شریک لوگ بھی بڑے متقی اور پرہیز گار تھے جن میں حاجی پہلوان خان، حاجی جلال خان ، حکیم جہانداد خان ،حاجی شیر محمد خان اور دوسرے کئی لوگ ہوتے تھے۔ ہر گائوں ہر علاقے میں انکی مصالحتی کمیٹی کے ممبران موجود ہوتے جو جمعة المبارک کو یہاں موجود ہوتے گائوں بھر میں تصفیہ طلب معاملات اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے کام میں یہ سب بزرگان ممبران حضرت شیخ کا ہاتھ بٹاتے ۔ اس دور میں اس علاقے کے چند انتشار پسندوں نے سنی وہابی دیو بندی بریلوی فتنے کو بڑی ہوا دی ہر جگہ اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنائیں۔ خانقائوں مدرسوں میں تفریق ڈالی علماء اور پیروں کو لڑانا کیا مگر وہ اس ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور ہمارے اس علاقے میں یہ تفریق زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی۔
تب پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے پیر آف اکوڑہ خٹک اور حضرت شیخ کی امامت میں اور حضرت شیخ کو اکوڑہ خٹک کی امامت میں نماز پڑھتے دیکھا دراصل حضرت شیخ الحدیث اپنے خطبوں میں بیانوںمیں درسوں میں ان اختلافی معاملات سے اپنا دامن بچاتے اور نہ خود چھیڑو اور نہ دوسرے کو چھیڑنے دو پر عمل پیرا رہتے۔
حضرت شیخ پابندی سے ہر سال تعلیم القرآن کا سالانہ تین روزہ جلسہ منعقد کرواتے جس میں آزاد کشمیر اور پاکستان بھر سے نامور خطیب اور علماء بلواتے جو حضرت شیخ کی ایک فون کال سے آنا اپنی سعادت سمجھتے ۔ اور پھر پلندری کی پہاڑیوں میں گری اس وادی میں یہ اجتماع اپنا سماں باند ھ دیتا ۔ مولنا غلام غوث ہزاروی ، مولنا عبدالحکیم ، مولنا عبدالشکور ، مولنا محمد اجمل لاہوری ، مولنا عبدلکریم شاہ پیر آف بکوٹ اور مولنا محمد عبداللہ اور مولنا عبدلمجید ندیم کے خطابات دن اور رات کا سماں باندھ دیتے ہر آنکھ اشکبار اور مجمع کو سانپ سونگ جاتا۔ قارئین یوں تو یہ سالانہ اجتماع خالصتا مذہبی ہوتا مگر پاکستان کے وزراء اورآزاد کشمیر کے صدور سردار محمد ابراہیم خان ، سردار عبدالقیوم خان ، کے ایچ خورشید اور جنرل حیات خان اس میں شامل ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ۔ جب آخری جمعہ کی نشست کو مولنا عبدالحمید قاسمی آف ہجیرہ او ر مولنا عبدالعزیز تھوراڑوی اپنے مخصوص انداز میں مسجد مدرسے کیلئے چندہ کی اپیل کرتے تو خدا کی قسم ہر مدر وزن اور سامعین اپنی جیبیں لٹانے کو فخر سمجھتے۔
اس طرح قارئین یہ جامع مسجد تعلیم القرآن انکی سرپرستی میں دارلعلوم بنا اور اب جامع اسلامیہ کشمیر آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ادارہ خانصاحب مرحوم نے مٹھی بھر آٹے سے جس مسجد کی بنیاد رکھی تھی اور حضرت مولنا غلام حیدر جنڈالوی رحمة نے جس طرح اس کی ابتداء کی پودا لگایا۔ اس ناتواں پودے کو نصف صدی تک آبیاری کرنے والے حضرت شیخ الحدیث نے اس کو تنا آور درخت بنایا جس کی ہر شاخ سے دن رات نورانی شعائیں نکل کر اس خطے کو منور کئے ہوئے ہیں۔ اس نورانی شخصیت اور پیر طریقت نے اس خطے علاقے کی ناخواندہ دین سے دور ہماری تین نسلوں کو اللہ کی مدد سے ہدایت یافتہ کیا آج اس خطے کا ہر گھرانہ ہر فرد اس ادارے سے مستفید ہو کر دنیا بھر میں دین کو اس روشنی کو پھیلا رہا ہے کوئی گھرانہ ایسا نہیں جس کے بچے بچیاں یہاں سے مستفید ہو کر دور دراز دین و توحید کی تعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں آج یہاں تو ہم پرستی ہے نہ لا دینیت ملا گری ہے نہ قبر پرستی لال کتابیں ہیں نہ جادو ٹونہ ہم سب کے وہ محسن پیر کامل جو خود ایک ادارہ تھے انجمن تھے دنیا سے اوجھل ہوگئے رخصت ہو گئے مگر ہمارے لئے ایک عظیم دینی درسگاہ یونیورسٹی مرکز انوار چھوڑ کر گئے جس کا انتظام انکے صاحبزادگان علامہ سعید یوسف ، قاری محمد مسعود اور مولنامحمد ارشد اس ادارے کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں۔
بہتر انداز سے اس ادارے کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ اس علاقے اور خطے کی سرکردگی بھی کر رہے ہیں رقیق القلب منکسر المزاج ماہر علوم دینیہ علامہ محمد سعید یوسف کی شخصیت خود ایک ادارہ ہے انجمن ہے جن کی شہرت و قابلیت اس خطے اور پاکستان کے علاوہ عرب ریاستوں میں بھی زبان زد عام ہے ہماری اور اس خطے کی خوش بختی ہے کہ ہمیں ایسی شخصیت میسر ہے اللہ میاں حضرت شیخ الحدیث کو جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا فرمائے اور ان کے صاحبزادگان خصوصا ً علامہ سعید یوسف حفظ اللہ کو عمر طویل عطافر مائے آمین۔
تحریر : حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزادکشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com