لاہور (ویب ڈیسک) خود فریبی ہے، نری خود فریبی۔ کب تک ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ آخر کار اپنا سامنا کرنا ہو گا۔ ایک دن ورنہ یہ بلبلہ پھٹ جائے گا۔ سب کچھ تو گروی رکھ دیا اب صرف ایٹمی پروگرام بچا ہے۔افراد کی طرح اقوام کی نجات بھی سچائی میں ہوتی ہے، نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔حقائق کو چھپا رکھنے میں نہیں۔ صرف سچ نجات دے سکتا ہے۔ جھوٹ ہمیشہ ہلاک کرتا ہے۔ ایک پوری قوم کذب کی قیدی ہو گئی۔ سچ پوچھیے تو فریب کاری کے سوا ہماری سیاست کچھ بھی نہیں۔ ایک آدھ نہیں، سارے فریق جھوٹ بولتے ہیں اور ڈٹ کر۔ اصل اور سنگین مسائل کی بجائے بحث غیر اہم عنوانات پہ ہوتی ہے۔ ہیجان کا مارا ہوا ایک معاشرہ، جس کی کوئی سمت نہیں؛ لہٰذا اس کی کوئی منزل بھی نہیں۔ شیری رحمن کی مثال لیجیے۔ قومی اسمبلی میں اصلاحاتی پیکیج کے فوراً بعد انہوں نے اعلان کیا کہ فلاں شق سمندر پار چھپائی گئی دولت کو تحفظ دینے کی خاطر ہے، علیمہ خان کے لیے۔ معیشت اور قانون کے ہر طالبِ علم نے ان کا مذاق اڑایا کہ یہ ضابطہ دولت کے اخفا نہیں بلکہ افشا کے لیے ہے۔ محترمہ نے چپ سادھ لی اور اب تک سادھے ہیں۔محترمہ شیری رحمن کو سمندر پار پڑے زرداری صاحب کی دولت کے ڈھیر دکھائی نہیں دیتے۔ رکشہ ڈرائیوروں اور فالودے والوں کے نام کھولے گئے سینکڑوں جعلی اکائونٹ دکھائی نہیں دیتے۔ نون لیگ والوں کو دبئی، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں شریف خاندان کے کروڑوں ڈالر نظر نہیں آتے۔پی ٹی آئی والوں کے لیے جہانگیر ترین معصوم ہیں، جنہوں نے ذاتی ملازمین کے نام پہ کروڑوں کا کاروبار کیا۔ ہر طرف دھوکہ دہی ہے، ہر طرف دھوکہ دہی۔ صنعت کاری میں جھوٹ ہے، تجارت میں جھوٹ ہے، سیاست میں جھوٹ ہے اور چیختی چلاتی دین داری میں بھی۔ پورا سچ بولنے والا کوئی نہیں۔ منافقین کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : دوسروں کو نہیں ، وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ قومی معیشت کا حجم کیا ہے ؟ برآمدات کتنی ہیں اور درآمدات کتنی؟ خوشحالی کے جو جلوے نواز شریف کے عہد میں نظر آئے، ان کی حقیقت کیا ہے ؟ عمران خان کی حکومت میں بھوک اور بے روزگاری پہ واویلا برحق لیکن پسِ پردہ حقائق کیا ہیں؟ معیشت کے اعداد و شمار ہی مستند نہیں۔ کبھی ایک تہائی معیشت کالی یعنی غیر دستاویزی تھی‘ اب ساٹھ ستر فیصد۔ صرف نواز شریف اور آصف علی زرداری نہیں ، صرف ان کے خاندان ہی نہیں ، ہزاروں پاکستانیوں کے کھربوں ڈالر بیرونِ ملک پڑے ہیں۔ صرف دبئی میں پاکستانیوں کی معلوم جائیداد دس ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔ برطانیہ ، امریکہ اور سوئٹزر لینڈ میں اس کے سوا، حتیٰ کہ ملائیشیا ، بنگلہ دیش اور چین میں بھی۔ سینکڑوں فیکٹریاں بیرونِ ملک منتقل ہو چکیں ۔تاجر کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی ، بے حس بیوروکریسی اور بے رحم ایف بی آر کے ہاتھوں وہ مجبور ہیں۔ دبی زبان میں لیکن، تاجروں اور صنعت کاروں کے لیڈر اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی دولت کا ایک حصہ سمندر پار چھپا رکھا ہے۔ رازداری کے ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی درآمدات 60 نہیں بلکہ 75 یا 80 بلین ڈالر ہیں۔ درآمد کنندہ جس مال کی قیمت دس کروڑ بتاتا ہے، دراصل وہ بارہ یا تیرہ کروڑ ہوتی ہے ۔ باقی پیسہ حوالے اور ہنڈی سے جاتا ہے۔ اس طرح 20 سے 40 فیصد ٹیکس بچا لیا جاتا ہے اور کبھی تو اس سے زیادہ بھی۔ روپیہ اسی لیے گرتا جاتا ہے اور اندیشہ ہے کہ گرتا جائے گا۔ ڈالر اسی لیے بڑھتا ہے اور اندیشہ ہے کہ بڑھتا رہے گا۔ عقیل کریم ڈھیڈی کہتے ہیں کہ نئے اصلاحاتی پیکیج سے کاروبار پھیلے گا۔ وہ مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن کاروباری طبقہ ہے۔ درآمدی مال کی قیمت کم ظاہر کرتا اور بعض برآمدات کی بڑھ کے بتاتا ہے تاکہ زرِ اعانت حاصل کیا جا سکے۔ مل جل کر یہ سب لوگ عام آدمی کا خون چوستے ہیں۔ حکمران اشرافیہ ان کی سرپرستی فرماتی ہے۔ وہ خود اس کھیل میں شامل ہے۔ سیاستدان ہی نہیں، آصف علی زرداری اور نواز شریف کاروبار میں بھی بڑے ہیں۔بڑے بڑوں کو چھوڑیے، جن کے فقید المثال کارنامے آج کل زیرِ بحث ہیں، پراپرٹی کے کاروبار میں ہزاروں ایسےہیں، ہر سال جو اربوں کا لین دین کرتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے گھر بنانا مشکل نہیں، نا ممکن ہوا تو انہی کے طفیل۔ لگ بھگ گیارہ ہزار ہائوسنگ سوسائٹیوں میں سے شاید ہی چند ایک ایسی ہوں، دھوکہ دہی کی جو مرتکب نہ ہوں۔ عام طور پر خریداروں کو تین سال میں رہائشی پلاٹس دینا ہوتے ہیں۔ ”نیکو کار‘‘ پانچ سات سال میں وعدہ وفا کر دیتے ہیں۔ اکثر دس پندرہ سال بیت جاتے ہیں۔ وہ بھی ہیں، سب کچھ لوٹ کر جو سمندر پار جا بستے ہیں۔ اکثر ہائوسنگ سوسائٹیاں قانونی اجازت کے بغیر اشتہاری مہم شروع کرتی ہیں۔ پلاٹوں کی اصل قیمت سے دس بیس گنا زیادہ سرمایہ سمیٹ لیا جاتا ہے۔ پھر نئی زمینوں کی خریداری۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، کروڑوں پاکستانی جس کے زخم خوردہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر سمندر پار پاکستانی۔ کل ان میں سے ایک نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ اگر نئے قائدِ اعظم ثانی جنابِ عمران خان اس کے 9 مقبوضہ پلاٹ واگزار کرا دیں تو بھاشا ڈیم کے لیے وہ دس کروڑ کا عطیہ پیش کرے گا۔اسد عمر کے پیش کردہ پیکیج کو اکثریت نے مثبت قرار دیا۔ ماہرین کی اکثریت کہتی ہے کہ اپوزیشن کا واویلا بے جا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اقدامات سے معیشت بحال ہو جائے گی؟ اقتصادیات کی پیچیدہ حرکیات سے بے خبر، مجھ سا عام شہری بھی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ بالکل نہیں، ہرگز نہیں اور قطعاً نہیں۔ سلسلہ در سلسلہ، پاکستانی اقتصادی نظام دھوکہ دہی کا ایک لا متناہی جال ہے۔معیشت کس چڑیا کا نام ہے؟ بازاروں میں رونق اور چہل پہل نہیں۔ ریستورانوں میں طرح طرح کے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے والے ہجوموں کا نہیں بلکہ زراعت اور صنعت کی ترقی کا۔ ہمارے پڑوسی ملک میں فی ایکڑ کپاس، گیہوں اور دھان کی پیداوار دو گنا سے زیادہ کیوں ہے؟ چین میں چاول کی پیداوار تین سو من فی ایکڑ تک جا پہنچی۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ ہمارے ہاں فیکٹریاں بنتی کم اور بند زیادہ ہوتی ہیں۔ سرکاری کاروباری ادارے ہر سال کم از کم ایک ہزار ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک ہر قسم کے رشوت خور کم از کم بیس بلین ڈالر سالانہ۔یہ بدلی ہوئی دنیا ہے۔ نمو پذیر ٹیکنالوجی کی دنیا۔ فراری ذہنیت کے حامل، ہم ماضی میں زندہ ہیں۔ حقائق کا سامنا کرنے کی ہم میں ہمت ہی نہیں۔ملک کے ہوائی اڈے اور موٹر ویز گروی رکھ کر نواز شریف نے 30 بلین ڈالر قرض لیا۔ شرح نمو پانچ فیصد ہو گئی۔ ان کا بس چلتا تو دس بلین ڈالر اور لیتے۔ راولپنڈی سے مظفر آباد اور پشاور سے کابل تک ریلوے لائن تعمیر کرتے۔ لاکھوں کا کاروبار چمکتا، بازاروں کی رونق کچھ اور بڑھ جاتی۔ پنجابی کے محاورے کے مطابق اسی لیے ان کے دور میں کچھ ” لہر بہر‘‘ تھی۔ عمران خان اتنا بڑا فریب کار بہرحال نہیں۔ 23 بلین ڈالر برآمدات، کم از کم 60 بلین ڈالر درآمدات۔ 17 سے بیس ارب ڈالر سمندر پار پاکستانی بھجوائیں گے۔ اسد عمر کے پیکیج سے چار پانچ ارب ڈالر کی بچت ہو جائے گی۔ باقی خسارہ کہاں سے پورا ہو گا؟ کیا کپتان اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ کیا وہ قوم کو بتا سکتا ہے کہ صورتِ حال کس درجہ سنگین ہے۔ کیا کھل کر وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ سالہا سال قربانی دیے بغیر ملک بحال نہیں ہو سکتا۔ کب تک ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ اپنا سامنا کرنا ہو گا‘ ورنہ آخر کار یہ بلبلہ پھٹ جائے گا۔ سب کچھ تو گروی رکھ دیا اب صرف ایٹمی پروگرام بچا ہے!