پچھلے کچھ برس سے بھارتی معیشت کی معاشی ترقی کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں بالعموم اور بھارتی میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور دکھایا جارہا ہے۔جس میں بھارت کا روشن چہرہ ہی دکھایا جارہا ہے۔ “شائننگ انڈیا” ہو یا “من موہن سنگھ کی معاشی اصلاحات” یا پھر موجودہ “مودی حکومت” کی معاشی کامیابیوں کے دعوے ان سب کے مطابق بھارتی معیشت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔
بھارتی حکومت کے دعووں کے مطابق 2014 میں بھارتی معیشت کی ترقی کی رفتار 6.9 فی صد تھی جوکہ 2015 میں 7.3 فی صد تک پہنچ گئی ،2016 میں ترقی کی یہ رفتار 8 فی صد تک پہنچ گئی ،ایشین بنک کی رپورٹ کے مطابق2017 میں ترقی کی یہ رفتار7 فی صد سے لے کر 7.4 فی صد ہونے کا امکان ہے۔ فی کس آمدنی جو کہ2014 میں 88.533 بھارتی روپے تھی 2015-2016 میں یہ آمدن بڑھ کر 93.293 ہوگئی۔ 2016-17میں یہ فی کس آمدن بڑھ کر 103.077 روپے ہوگئی۔
معاشی ترقی کے یہ دعوےکس قدر حقیقت پر مبنی ہیں اس کے بارے میں بھارتی حکومت ہی بہتر بتا سکتی ہے البتہ یوسفی نے کہیں لکھا تھا کہ جھوٹ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جھوٹ ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار۔
حالیہ دنوں میں ایک سروے شائع ہوا ہے ۔اس سروے کے مطابق ’’جمہوریہ بھارت‘‘ میں غریب اور بھوکے بچوں کی تعداد “آمریت زدہ شمالی کوریا” سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سروے کے لئے 119 ممالک کا انتخاب کیا گیا ۔ اس سروے کے مطابق شمالی کوریا کی درجہ بندی بھارت سے سات درجے بہتر تھی جب کہ بھارت اس فہرست کے آخر میں موجود افغانستان سے سات درجے بہتر تھا۔
اس سروے کو تیار کرنے والے ادارے نے اس سروے کو تیار کرتے ہوئے تین عوامل بچوں کے لئے خوراک کی عدم دستیابی ، چھوٹے بچوں میں شرح اموات اور ان کے لئے صحت کے لئے دستیاب سہولتوں کو مدنظر رکھا۔ اس سروے کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ غریب اور بھوکے بھارتی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔لگتا یوں ہے کہ بھارتی معیشت کی ترقی کے یہ دعوے ان بچوں کو چھو کر بھی نہیں گزرے۔
مودی کے ’’خوش حال بھارت‘‘ میں بھوکے بچوں کی اتنی بڑی تعداد شاید کچھ لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہو کیونکہ بین الاقوامی سطح پر تو بھارتی خوش حالی کا بھونپو بجایا جا رہا ہے اور اسے سرمایہ کاروں کے لئے آئیڈیل ملک کہا جارہا ہے لیکن زمینی حقائق بہرطور بھارتی معیشت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول رہے ہیں۔
اگر اس سارے معاملے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھوکے اور غریب بھارتی بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مسلۂ خاصا پرانا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس میں کچھ لوگ ملکی وسائل کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور آبادی کی اکثریت کے لئے کچھ بھی نہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق آج کے بھارت میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ’’تقسیم ہند‘‘ سے کہیں زیادہ ہے۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھوکے اور غریب بھارتی بچوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد پالیسی ساز وں کے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی اور حکمرانی امراء کے ہاتھ ہے جن کے لئے “مریخ پر راکٹ” بھیجنا جیسے نمائشی کام غربت ختم یاکم کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔ ان کے لئے بڑھتی ہوئی غربت، بچوں کے لئے صحت اور تعلیمی سہولتوں کی کمیابی سے زیادہ جی فور موبائل کا حصول اور تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنا زیادہ اہم ہے۔
بڑھتی ہوئی غربت میں اضافے کی ایک اور وجہ ان لوگوں کے مذہبی عقائد بھی ہیں جس میں اپنی موجودہ حالت کو بہتر بنانے سے زیادہ دیوتاؤں کو خوش رکھنا زیادہ ضروری ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ اولاد ان کے دیوتاؤں کی مہربانی ہے اور وہ ہی ان کے حالات کو بہتر بنائیں گے۔
ان لوگوں کے مذہبی عقائد اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر بھارت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے ملکی وسائل کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور پالیسی سازی میں پسماندہ اور پسے ہوئے لوگوں کو شامل کرنا ہوگا تاکہ ملکی ترقی کے یہ ثمرات معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچ پائیں ورنہ ملکی ترقی کے یہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔