تاحدنظر پھیلا آسمان ایک طرف دعوت نظارہ دے رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف بے کراں سمندر ساحل پر کھڑے لوگوں کی ان جانی خواہشات کو گرما رہا ہوتا ہے۔ انہی ساحلوں پر ہر روز ڈوبتا سورج اپنے پیچھے اندھیرے چھوڑ جاتا ہے تو ساتھ ہی نئی صبح کے انتظار کا پیغام بھی دے جاتا ہے کہ آنے والی صبح نئی خوشیاں ساتھ لائے گی۔
چند دن قبل تک جہازوں کے قبرستان (شپ بریکنگ یارڈ) تک پہنچنے کے لیے راستہ پوچھنا پڑتا تھا، لیکن آج میلوں دور سے افق پر دکھائی دینے والا گاڑھا سیاہ دھواں اس مقام کی نشان دہی کر رہا ہے۔ آج یہ دھواں صرف ایک حادثے کا شاہد نہیں، اس دھویں میں درجنوں مزدوروں کے جسموں کا خراج بھی شامل ہے، جو اپنے اہل و عیال کی دو وقت کی روٹی کے لیے، زرپرست مالکان اور ٹھیکے داروں کی جیبیں بھرنے کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے تھے، لیکن نومبر کا پہلا دن ان کے لیے کچھ انوکھا تھا۔
آج وہ مزدوری پر نہیں سفر آخرت کی جانب گام زن تھے، ایک ایسے سفر پر جس کے لیے ساری زندگی پھٹے پُرانے کپڑے پہنے والے غریب سے غریب شخص کو بھی نیا سفید بے داغ لٹھا پہنا کر روانہ کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے سفر پر جہاں نہ انہیں بیوی بچوں کے لیے روزی کمانے کی پریشانی، نہ بوڑھے ماں باپ کے علاج کی چنتا، نہ اُن کی چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشات پوری کرنے کی فکر۔
اس سفر نے انہیں دنیا کے رنج و الم سے تو آزاد کردیا لیکن زندگی کی طرح موت بھی بہت دردناک ملی۔ کسی نے اپنے ہی ہاتھ ، پیر کو کٹ کر فضا میں اُڑتے دیکھا ہوگا تو کسی نے ٹنوں وزنی لوہے کے نیچے دب کر انتہائی تکلیف میں موت کا مزا چکھا ہوگا، کسی نوجوان نے آخری لمحات میں آگ کی تپش سے جھلستے ہوئے، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی ماں کو بتانے کی کوشش کی ہوگی کہ ماں جس بیٹے کو تو نے کبھی کانٹا بھی نہیں چبھنے دیا آج اس کا جسم لوہے کے ٹکڑوں سے چھلنی اور آگ کی لپیٹوں میں جھُلس رہا ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جسے عرف عام میں ’’جہازوں کا قبرستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اب درجنوں انسانوں کا قبرستان بھی بن چکا ہے۔ ایسے انسانوں کا جو اپنی تمام تر نا آسودہ خواہشات سینے میں لیے ایک ہی لمحے میں زندگی سے موت تک کا فاصلہ طے کرگئے۔
جیتے جی روز مرنے والے، روکھی سوکھی کھاکر، شپ یارڈ پر گھر کے نام پر بنی کھولیوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر قہقہے لگانے والے چشم زدن میں، انسانی غفلت، جمعدار (ٹھیکے دار) کی پیسے کمانے کی لالچ، مالک کی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس میں جیتے جاگتے انسان سے جھلسے ہوئے ماس میں تبدیل ہوگئے۔ کتنے بدنصیب تھے یہ لوگ کہ نہ تو زندگی میں اچھا پہن سکے اور نہ ہی مرنے کے بعد سفید براق لٹھے کا کفن پہننا نصیب ہوسکا۔
شپ بریکنگ کی تاریخ کے سب سے ہول ناک حادثے میں کتنے مزدوروں نے جان کی بازی ہاری یہ معما شاید کبھی حل نہ ہوسکے، زر کے پجاری چند درندہ صفت جمع داروں نے کام کے دوران زخمی اور مرنے والوں کو زر تلافی نہ دینے کے لیے ایک انوکھا نظام قایم کررکھا ہے۔ یہاں جہاز پر جانے والے مزدوروں کے نام کا اندراج کام شروع ہونے سے پہلے نہیں بل کہ کام ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
مزدوروں کے استحصال کے اس بدترین نظام کا مقصد ڈیوٹی کے دوران ہلاک یا زخمی ہونے والے مزدور کو زرتلافی کے نام پر ملنے والی معمولی رقم تک کو ہڑپ کرجانا ہے، کام کے دوران زخمی ہونے والا مزدور جہاز پر چڑھنے سے قبل اندراج نہ ہونے کی وجہ سے جمع دار کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اب یہ جمعدار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے نام کا اندراج کرکے اس کا علاج کروائے یا نہیں۔
اور معمول کے مطابق پر چڑھنے والے مزدوروں کے نام اور تعداد کا بھی کہیں اندراج نہیں ہے۔
شپ بریکنگ یارڈ پر ہونے والے حادثے اور مزدوروں کی حالت زار کے حوالے سے ’شپ بریکنگ ورکرز یونین‘ کے صدر بشیر احمد محمودانی کا کہنا ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جہاز کو ڈس مینٹل کرنے والے مزدوروں کو کسی قسم کے ذاتی حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے، جب کہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک کیمیکلز کی وجہ سے مزدور دمے اور جلدی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ گلاس وول فوم کی طرح کا ریشے دار کیمیکل ہے۔ یہ اگر جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو شدید خارش ہوتی ہے۔ یہ سانس کے ساتھ یہ پھیپھڑوں میں جاکر کھانسی اور دمے میں مبتلا کردیتا ہے۔
اگر کسی مزدور کے ہاتھ یا پیر میں فریکچر ہوجائے تو اْسے دوبارہ کام پر رکھنے کے بجائے گاؤں بھجوادیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے لیے رہنے کے لیے نہ مناسب جگہ ہے اور نہ ہی پینے کے لیے میٹھا پانی، مجبوراً انہیں بورنگ کا کھارا پانی پینا پڑتا ہے، جس سے اْنہیں پیٹ کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔ مزدوروں کی خراب صورت حال کی ذمے داری مالکان کے بجائے جمعداروں (ٹھیکے داروں) پر عاید ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے گروپ بندی کی ہوئی ہے۔
اگر کوئی مزدور کام کے دوران مر جائے تو ٹھیکے دار اور علاقہ پولیس کی چاندی ہوجاتی ہے، کیوں کہ انہیں اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے۔ مالکان اور حکومت کو ریونیو کی مد میں اربوں روپے فراہم کرنے والی اس صنعت میں مزدور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں، آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جہاز پر انتہائی اونچائی پر کام کرنے والے مزدور آپ کو حفاظتی جنگلے اور (سیفٹی ہارنیس) حفاظتی رسی کے بغیر نظر آئیں گے۔
ناکارہ جہازوں میں تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا اور کاٹنا ماہر گیس فٹر کا کام ہے، کیوں کہ اگر انہیں بداحتیاطی سے کھولا یا کاٹا جائے تو دھماکے کے ساتھ آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے واقعات یہاں آئے دن ہوتے رہتے ہیں، صرف اس وجہ سے اب تک درجنوں مزدور اپاہج اور کئی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے نیچے اترنے کے لیے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں ہوتا۔
حالیہ حادثے میں بھی دھماکے کے بعد بلندی پر کام کرنے والے مزدوروں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی اور اب تک تمام لاشیں بھی سمندر سے ملی ہیں، ایدھی فاؤنڈیشن اور فائربریگیڈ کے عملے کی کوششوں سے 4 دن بعد آگ پر قابو پالیا گیا، گذشتہ روز جہاز کےhull کے ملبے سے کچھ مزدوروں کے کچھ اعضا ملے ہیں۔مکمل طور پر کولنگ کے بعد ہی مزید مزدوروں کی تلاش کا کام کیا جاسکے گا۔
حادثے کے صحیح وجوہات کا جاننا تو شاید اب ممکن نہیں لیکن ہوا یہی ہوگا، کہ تیل اور دیگر آتش گیر مادوں کو مناسب طریقے سے صاف کیے بنا ہی کٹائی کا کام شروع کردیا گیا اور گیس ویلڈنگ کے شعلوں نے چند ہی لمحوں میں درجنوں انسانوں کو راکھ میں تبدیل کردیا۔ اس کی تمام تر ذمے داری جہاز کے مالک اور جمعدار پر عاید ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے مزدوروں کو سب کام ایک ساتھ شروع کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔
اس طرح اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں، کیوں کہ جمع دار اپنے منافع اور مالک کو زیادہ سے زیادہ منافع دینے کے چکر میں مزدوروں کا باقاعدہ اندراج نہیں کرتے۔ لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق جہاز پر 250سے 270 مزدور کام کرنے گئے تھے، کیوں کہ لکڑی، گیس ویلڈنگ، صفائی کے لیے عموماً ہر جہاز پر اسی سے نوے مزدور ایک کام کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ’شپ بریکنگ یارڈ‘
دنیا کے تیسرے بڑے شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوری کے نام پر جیتے جاگتے انسانوں سے حیوانوں سے بھی بدتر کام لیا جارہا ہے، یہاں پر کام کرنے والے مزدور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ مزدور یونینز کی بدولت ان کی اجرت میں برائے نام اضافہ تو ہوا ہے، لیکن دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کا واضح ثبوت اسی علاقے میں لکڑی کے کیبینز میں بنی پرانے جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں ہیں، کیوں کہ کام کرنے کے لیے حفاظتی جوتے اور کپڑے بھی انہیں اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔
ان مزدوروں کو نہ تو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے مناسب جگہ، کچھ مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت جہازوں سے نکلنے والے ’’ناقابل فروخت‘‘ سامان کی مدد سے اپنی جھگیاں بنالی ہیں، جن میں وہ موسم کی شدت سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے شپ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح بہبود اور جان و مال کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے کم عمر اور بوڑھے، دونوں طرح کے مزدور حفاظتی جوتوں، دستانوں، فیس ماسک، یونیفارم اور حفاظتی آلات کے بغیر رزِق حلال کے لیے کوشاں ہیں۔
ناکارہ جہازوں میں موجود کینسر اور سانس جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بننے والا آلودہ تیل ان کے لیے خطرناک ہے۔ ان کے ساتھ کئی کیمیکلز (ایبیسٹوز، گلاس وول، پولی کلورینیٹڈ بائی فنائیل، بلج اور ڈسٹ واٹر) ان مزدوروں کو ’’دمے‘‘ اور ’’کینسر‘‘ سمیت کئی مہلک جلدی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حادثے سے بچیں، کیوں کہ ایسے میں مناسب طبی امداد میں تاخیر انہیں موت سے ہم کنار کردیتی ہے۔
اوسطاً ہر ماہ تین چار مزدور مختلف حادثات کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، تقریباً اتنی ہی تعداد میں مزدور اپنی ناآسودہ خواہشات، گھر والوں کی کفالت کی خواہش دل میں لیے زندگی بھر کی معذوری کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں، کئی بار ایسا ہوا کہ زخمی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی زیادہ خون بہنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔
اس پورے علاقے میں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے صرف ایک ایمبولینس فراہم کی گئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ڈسپنسری کے بارے میں مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہاں صرف نزلہ، کھانسی وغیرہ کا علاج ہوتا ہے یا پھر معمولی زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ اس ڈسپنسری کی بوسیدہ عمارت حادثے کے بعد مزدوروں کی جھلسی ہوئی لاشوں اور باقیات کو رکھنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ وہ خطرناک کیمیکل جن پر دنیا کے بیش تر ممالک میں پابندی عاید ہوچکی ہے، ریت پر جا بہ جا ان کے ڈھیر لگے تھے۔
یہ مادے کارسینوجینک ہیں، یعنی ان کی وجہ سے کینسر لاحق ہوسکتا ہے، لیکن اس کا علم ان مزدوروں کو نہیں ہے، کیوںکہ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر مزدوروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سکت نہ ہونے کے سبب وہ پھیپھڑوں کی بیماری یا کینسر میں مبتلا ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
پورے ملک کو سوئی گیس فراہم کرنے والے صوبے کے اس علاقے میں مزدور کیکر کی لکڑیوں پر کھانا پکا نے پر مجبور ہیں۔ اس لکڑی کے جلنے سے نکلنے والا دھواں انہیں سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاںآتش گیر کیمیکل، آکسیجن کے بڑے بڑے ٹینک موجود ہوں، وہاں لکڑی جلانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے، لیکن مزدوروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہاں روٹی 15روپے، اور سبزیاں مارکیٹ سے 30سے40روپے منہگی ہیں۔ خطرات اور ہلاکت سے بھری اس فضا میں زندگی کرتے مزدور دراصل لمحہ لمحہ موت اور بیماریاں کشید کر رہے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے لی جانے والی ہر سانس ان کے جسموں میں زہر اتار رہی ہے، لیکن کوئی متعلقہ ادارہ اس صورت حال پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔
لمحہ بہ لمحہ زندگی نگلتا شپ بریکنگ یارڈ
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ نہ صرف انسانوں کے لیے موت کا سامان بن رہا ہے بل کہ ناکارہ جہازوں سے نکلنے والے تیل، کیمکلز اور دیگر اشیاء نے آبی اور فضائی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ وسعت کے اعتبار سے دنیا کے اِس تیسرے بڑے شپ بریکنگ یارڈ میں داخل ہوتے ہی دیوہیکل کرینیں دکھائی دیتی ہیں، ہوا کے ساتھ اڑتے ’’گلاس وول‘‘ (مقامی زبان میں کھجلی) کے ذرات ہیں، کیمیکلز کی مخصوص بْو ہے جو ناک میں چبھتی ہے، یہ سب ناگوار چیزیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں لائے جانے والے جہازوں کی اکثریت تیل بردار اور کارگو جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے، جن سے نکلنے والآآلودہ تیل آگے فروخت کردیا جاتا ہے اور کیچڑ جیسے خراب تیل کو بوریوں میں بند کرکے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو آبی حیات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ مزدور حفاظتی آلات کے بنا جہاز کے پیندے میں سوراخ کرکے بلاسٹ واٹر/بلج واٹر بھی سمندر میں بہا دیتے ہیں، جب کہ جہازرانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بلج واٹر یا بلاسٹ واٹر کو ٹریٹمنٹ کے بعد تلف کیا جاتا ہے۔
تین سال قبل تک گلاس وول، سلج اور دیگر زہریلے کیمیکلز کو سمندر اور ساحل پر پھینکنے پر پابندی تھی، مگر اب اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کی مانیٹرنگ کرنا انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ذمے داری ہے۔ اصولاً یارڈ پر آنے والے ہر جہاز کو ڈس مینٹل (اسکریپ میں تبدیل کرنے سے پہلے کا عمل) سے پہلے کسٹمز اور ای پی اے سے این او سی (نوآبجیکشن سرٹیفیکیٹ) کا حصول لازمی ہے۔
جہاز میں سینتھیٹک آئل، ہائیڈرولک آئل، کروڈآئل، ڈیزل، مٹی کے تیل سمیت مختلف پیٹرولیم مصنوعات بھی موجود ہوتی ہیں۔ کارگو اور آئل کی ترسیل کرنے والے جہازوں میں تیل اور ایندھن کی شرح مسافر بردار جہاز کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاز توڑنے کے دوران مشینری، کارگو ٹینکس اور دیگر حصوں میں موجود تیل کا متواتر ایکسپوژر ’’جگر‘‘، ’’گردے‘‘، ’’دل‘‘ اور ’’مرکزی اعصابی نظام‘‘ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان اشیا کو سمندر میں بہائے جانے کی صورت میں آبی حیات اور ماحول پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
امدادی کارروائیاں
جہاز پر دھماکوں کے بعد شروع ہونے والی امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن بلوچستان کے انچارج ڈاکٹر عبدل الحکیم لاسی کے مطابق ہمیں یکم نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے اس واقعے کی اطلاع ملی تھی، جس کے فوراً بعد ہم نے امدادی کارروائیاں شروع کردی تھیں۔ اب تک بیس لاشیں اور 58 سے زائد زخمیوں کو کراچی منتقل کرچکے ہیں۔
زخمیوں کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افراد 60فی صد سے زاید جھلسے ہوئے ہیں، جب کہ جہاز کے پچھلے حصے میں ابھی تک آگ لگی ہوئی ہے اور تپش بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم وہاں صحیح طریقے سے ریسکیو آپریشن شروع نہیں کرپا رہے۔ پورا ایریا سو فی صد کلیئر نہ ہونے تک ہمارا ریسکیو آپریشن جاری رہے گا، جب کہ فیصل ایدھی اور ان کے بیٹے عبدالستار ایدھی جونیئر بھی پہلے دن سے یہاں موجود ہیں اور اپنی نگرانی میں زمینی اور بحری امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
شپ بریکنگ یارڈ کی تاریخ اور معیشت میں کردار
1980 کی دہائی میں اس کا شمار تیس ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے شپ یارڈ میں کیا جاتا تھا۔ تاہم حکومت کی عدم توجہی اور ایشیائی خطے میں بنگلادیش اور بھارت کی جانب سے شپ بریکنگ یارڈز کے قیام کے باعث پاکستان کو خطیر زرِمبادلہ فراہم کرنے والی یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ آج یہ صنعت 80 کے عشرے میں پیدا ہونے والے اسکریپ کے مقابلے میں محض ایک چوتھائی اسکریپ پیدا کر رہی ہے اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بھی دس ہزار سے کم ہوچکی ہے۔
جہاز توڑنے کی اس صنعت سے ہر سال دس لاکھ ٹن سے زاید اسٹیل حاصل ہوتا ہے جسے مقامی خریدار ہی خرید لیتے ہیں، جب کہ پلاسٹک، لکڑی اور دیگر سامان بھی پاکستان میں ہی فروخت ہوجاتا ہے۔ گڈانی شپ یارڈ میں اس وقت سالانہ ہر جسامت کے (بشمول سپر ٹینکرز) 125جہازوں کو اسکریپ میں بدلنے کی گنجائش ہے۔
پاکستان کے پس ماندہ صوبے بلوچستان میں قایم یہ صنعت کار کردگی کے لحاظ سے دنیا بھر کے شپ بریکنگ یارڈز میں پہلے نمبر پر ہے جس کا سہرا اس صنعت کی اپنے خون پسینے سے آب یاری کرنے والے غریب مزدوروں کے سر جاتا ہے، جو حفاظتی اقدامات اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باوجود یہاں آنے والے ہزاروں ٹن وزنی جہاز کو دو سے ڈھائی ماہ کے عرصے میں اسکریپ بنادیتے ہیں اور بھارت اور بنگلادیش کے مزدور اسی جسامت کے جہاز کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنے میں چھے ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا دیتے ہیں۔
پرانے جہازوں سے نکلنے والے ہلاکت خیز مادے
چند سو روپے معاوضے کے عوض شپ یارڈ کے مزدور نہ صرف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں بل کہ دس سے بارہ گھنٹے تک ناکارہ جہازوں میں موجودہ انتہائی مہلک کیمیکلز، مادوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ناخواندہ اور غیرتربیت یافتہ ہونے کے سبب وہ اس بات سے بھی آگاہ نہیں ہوتے کہ جس مادے کو وہ ننگے ہاتھوں سے پکڑ رہے ہیں وہ انہیں آہستہ آہستہ ایسی مہلک بیماریوں کی لپیٹ میں لے رہے ہیں جن کا علاج کرانا ترقی یافتہ ممالک کے مال دار افراد کے بس سے بھی باہر ہے۔ ناکارہ بحری جہازوں میں معصوم مزدوروں کی زندگی کم کرنے والے چند مضر کیمیکلز یہ ہیں:
٭گلاس وول
٭ ایبیسٹوز
یہ ریشے دار مادہ ہے، جسے زیادہ درجۂ حرارت بر داشت کرنے کی وجہ سے بریک لائننگ، انسولیٹنگ (غیرموصل بنانا) اور آگ سے تحفظ فراہم کرنے والے کپڑوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سفید، بھورے اور نیلے رنگ کا یہ مادہ پھیپھڑوں، حلق، معدے اور آنتوں کے کینسر سمیت نظام تنفس اور دل کی متعدد بیماریوں کا باعث ہے۔ انہی نقصان دہ اثرات کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ایبیسٹوز کے استعمال پر پابندی ہے۔
اس مادے کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا ایک ریشہ انگلی میں چْبھ جائے تو اْس جگہ مسا بن جاتا ہے، جسے ’ایبیسٹوز کارن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایبیسٹوز کے لیے کہا جاتا ہے ’’ون فائبر کلز‘‘۔ایبیسٹوز کی ’’میٹیریل سیفٹی ڈیٹا شیٹ‘‘ کے مطابق جلد پر براہ راست لگنے سے خارش، سوزش، آنکھوں پر لگنے کی صورت میں جلن اور سرخی اور اگر معدے میں چلا جائے تو آنتوں میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہم ایبیسٹوز کا ریشہ مستقل نگلے جانے کی صورت میں بکل کیویٹی (منہ) فیرنگس، او ایسو فیگس (نرخرے) معدے، کولون (بڑی آنت) اور ریکٹم (مقعد) میں کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ایبیسٹوز کی معلوماتی شیٹ پر یہ بات بھی واضح لکھی ہوئی ہے کہ گر جانے والے میٹیریل پر چلنے یا اسے چھونے سے گریز کریں۔ اس مادے کو حفاظتی آلات پہن کر موزوں کنٹینر میں ڈال دیں۔ اسے آبی گزر گاہوں اور سیوریج کی لائنوں میں نہ بہایا جائے۔ دوسری جنگ عظیم تک صرف امریکا میں ہی کشتی سازی کی صنعت سے وابستہ تقریباً ایک لاکھ افراد کی وجہ سے ہلاک یا بیمار ہوئے تھے۔
٭پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلز
پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلز ایک نامیاتی مادہ ہے جسے برقی حرارت کی منتقلی، ہائیڈرولک آلات، رنگ، پلاسٹک اور ربر سے بننے والی مصنوعات میں بہ طور پلاسٹی سائزر (کسی مادے کو کیمیائی طریقے سے لچک اور لوچ پیدا کرنے کے لیے تیار کرنا) استعمال کیا جاتا ہے۔ غیرآتش پذیری، کیمیائی طور پر مستحکم، اونچے نقطۂ اُبال اور برقی انسولیٹنگ خصوصیات کی بنا پر پانی کے جہازوں میں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا رہا ہے۔
یہ مادہ جہاز کو توڑنے کے دوران ٹھوس اور مائع دونوں شکلوں میں حاصل ہوتا ہے، تاہم حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے کی وجہ سے یہ سانس کی نالی اور جلد میں جذب ہوکر مزدوروں کے جسم کے فیٹی ٹشوز میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس مادے کے متواتر ایکسپوژر کے نتیجے میں انسانی جسم کے مدافعتی نظام، تولیدی نظام، اعصابی نظام اور غدودوں کے نظام پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٭بلج اور بلاسٹ واٹر
شپ بریکنگ کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاز کو ڈس مینٹل کرنے کا سب سے اہم حصہ بلج اور بلاسٹ واٹر کی باقاعدہ صفائی اور اْسے تلف کرنا ہے۔ اگر یہ کام احتیاط کے ساتھ نہ کیا جائے تو اس سے ماحول اور مزدوروں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ بلج واٹر جہاز کے پیندے میں جمع ہونے والے گندے پانی اور دیگر مائعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس پانی میں تیل، گریس، غیرنامیاتی نمکیات (سنکھیا، تانبہ، کرومیم اور سیسہ) شامل ہوتے ہیں۔بلاسٹ/ویسٹ واٹر اْس پانی کو کہتے ہیں جو جہاز کو متوازن رکھنے کے لیے بنے مخصوص ٹینکوں میں داخل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر جہاز اس پانی کو سفر کے دوران ہی سمندر میں گراتے رہتے ہیں۔ تاہم کچھ ناکارہ جہازوں میں یہ موجود ہوتا ہے۔ بلاسٹ واٹرکازیادہ استعمال بڑے ٹینکرز اور کارگو جہازوں میں کیا جاتا ہے۔ نامیاتی مادوں، وائرس اور بیکٹیریا پر مشتمل یہ پانی سمندری حیات، ماحول اور انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔ شپ بریکنگ کے قواعد کےمطابقبلج /بلاسٹ واٹر کے ٹینکوں کو ساحل پر بنے ٹینکوں میں منتقل کرنے کے بعد ٹریٹ کرکے تلف کیا جانا چاہیے۔