تحریر : احمد سعید
”پرتگال ” قدیم یونانی زبان سے نکلا ہوا لفظ نہیں ہے، جس کا مطلب ہے ”پتہ نہیں”۔ پتہ نہیں اِس کا مطلب نہیں ہے بلکہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ اِس کا کیا مطلب ہے؟لیکن میرے نزدیک یہ یونانی اور جاپانی الفاظ کا مرکب ہے۔ اس کا نام کسی زنانی نے رکھا تھا۔ لیکن یہ فقط میرے ہی نزدیک ہے حقیقت کے نزدیک نہیں ۔”]پرتگال ” وہ واحد ملک ہے جو کہ واحد ہے جمع نہیں ،کیونکہ اِس نے بے شمار ملکوں پر حکومت کرکے اپنے آپ کو جمع بنالیا تھا ،لیکن آخرکار اپنی سلطنت ہی بچا سکا اور واحد ہوگیا۔ ویسے یہ حال صرف پرتگال کا نہیں اس میں فرانس، انگلینڈ اور کئی ممالک شامل ہیں اور اب امریکہ بھی بلی کو چھیچڑوں کے خواب کے فارمولے پر کاربند ہے۔ کار بند سے مجھے اپنی ایک کار یاد آگئی جو بند ہی اچھی لگتی تھی، کیونکہ اگر اُس کار کو کبھی غلطی سے چلا لیتا تو پھر وہ ایسی بند ہوتی کہ چلنے کا نام ہی نہ لیتی۔
اِس قسم سے کوئی دو قسم آگے کی موٹریں اور گاڑیاں میرے دوستوں کے پاس تھیں۔ ظاہر ہے جی۔۔۔ ”صحبتِ صالحِ طرا صالحِ کند ”احمد کے پاس ایک ڈبہ نما کار تھی ،گاڑی تو نئی تھی دھکا جانے ہر بار ہم کیوں لگاتے تھے ۔ خرم کے پاس جو موٹر سائیکل تھی وہ تھی تو خیر موٹرسائیکل ہی۔ پر کبھی پرانی سائیکل لگتی اور کبھی سائیکل بھی نہ لگتی۔ جب وہ چلتی (جبکہ اسکو دیکھ کے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ چلتی بھی ہے) تو کچھ اِس قسم کی آوازیں اُس میں سے محسوس ہوتیں۔”خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔”سلمان کے گھر کار تو اچھی دکھائی دیتی لیکن اِس کے لئے وہ بند ہی تھی، ملتی جو نہ تھی۔ علی کی طرف دو کاریںتھیں پھر بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر ہی پایا جاتا۔
موٹر سائیکل بھی ایسی کہ چند سالوں بعد اسکی قیمت بہت بڑھ جانے والی تھی کیونکہ انتہائی قدیم چیزوں کی قیمت ایک وقت آتا ہے انتہائی بڑھ جاتی ہے۔ جی تو پرتگال واپس آتے ہیں۔ اتنی دیر یہاں رہتے ہوئے یہ یقین ہو چلا ہے کہ پرتگال میں زیادہ تر پرتگالی ہی رہتے ہیں اورگالی اِن کو بالکل نہیں پسند (جو کہ کسی کو بھی پسند نہیں ہوتی) یہاں لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہیں (لوگ گھروں میں ہی رہا کرتے ہیں) زیادہ تر گرمی کے موسم میں پنکھے بھی لگاتے ہیں۔
(گرمی میں ہیٹر لگانے سے تو رہے) آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ اکیسویں صدی میں بھی یہ اپنی زبان ہی بولتے ہیں ، انگلش نہیں اور اپنی زبان پہ فخر بھی کرتے ہیں۔ کسی ملک کے نیچے نہیں لگے اپنی بیگموں کے نیچے لگے ہوں تو یہ اِن کے گھر کا معاملہ ہے ۔ پرتگال کا دارالحکومت لسبن (Lisbon) ہے۔ میں اکثر غلطی سے اِسے Lasbia… بھی کہہ گیا۔ جن کے سامنے کہہ گیا سو کہہ گیا۔ جو ہوگیا سو ہوگیا۔ اور جن کے سامنے نہیں کہا (ویسے کیوں نہیں کہا) اُن سے بس معذرت۔ ذہن میں اچھی طرح پکالیں ،پھر ہی کہیے گا کہ ” زبان سے نکلا تیر اور جنگل سے نکلا شیر کبھی واپس نہیں آتا۔” لسبن شہر میں سب کچھ ہے سوائے گول گپوں کے۔” لسبن” کو یہ اپنی زبان میں لسبوا کہتے ہیں بوا (boa) کا مطلب خوبصورت ہے۔
لیکن اگر آپ لڑکی کیلئے یہاں” بوا ”استعمال کریں تو اِس کا ذرا غلط مطلب ہے، لیکن یہ برا نہیں منائیں گی ،لیکن کچھ منا بھی سکتی ہیں۔ اَب منا کیا سکتی ہیں… رنگ رلیاں یا کچھ اور یہ مجھے اندازہ نہیں۔ لسبوا کو تقریباً چاروں طرف سے چھوٹی، بڑی پہاڑیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ یورپ کا خوبصورت ترین اور ستاترین شہر ہے اگر آپ سستی چیزیں ہی لیں تو۔ لسبن میں بہت زیادہ برازیلین ہیں۔ کیوں ہیں؟
اِس کا ساادہ سا جواب ہے کہ انگلینڈ میں پاکستانی اور انڈین کیوں ہیں۔برازیل میں بھی پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا شاپنگ مال بھی ” لسبن ”میں ہی وقوع پذیر ہے۔ یہ ”کولمبس ”کی یاد میں بنایا گیا۔ ”کولمبس” نے امریکہ دریافت کیا تھا ،یعنی یہ حرکت پرتگالیوں کی تھی۔
تحریر : احمد سعید