تحریر : شھنیلا حسین
یه جو بھائی صاحب عشق کرنے کی اجازت لیکر آۓ ہیں ان سے سفارش کروا کر مجھے امتحان میں پاس ہونے کیلۓ رشوت دینے کی اجازت بھی دکوا دیں پلیز.. جو لوگ بھی اسطرح کے شرکیه گانے سنتے اور گاتے هیں ان سب مسلمانوں سے گزارش ہیکه اپنے ایمان تازہ کرلیں کلمه پڑھ کر.. کیونکہ وہ شرک کرکے اپنے ایمان کھو چکے هیں .. دنیا بھر کی تعریفیں ایک انسان کے سجدے میں اور رب کی اجازت..استغفار ہم سعچ بھی نہیں سکتے کہ ہم سے جانے انھانے میں کتنا بڑا گناہ ھورہا ہے۔
کافر کوگ مسلمان کو بھی جافر کرنے کی جستجو میں لگے ھوۓ ہیں مسلمان کو گمراہ کرنے کیلۓ سب سے آسان کام ہے اسطرح وہ اپنے دین سے بھی دور ہونگے اور ایمان بھی کمزور..اسطرح کے لاتعداد شرکیہ گانے گا کر ہم اپنا ایمان کمزور کرچکے ہیں یاد رکھیں خدا کے گھر ہر گناہ کی معافی ہے بجز شرک کے.. دنیا بھر میں مسلمان تکلیف وپریشانی میں مبتلہ ہیں اور میرے خیال میں اسکی بڑی وجہ دین سے دوری بھی ہے ہم نے اپنے ایمان کی حفاظت کرنی ہی چھوڑ دی ہے شرکیہ گانے سننا پیار محبت کی داستانوں میں محبوب کو خدا سمجھ لینا جکل. عام سی بات ہے حد ہیکه ہم نے شرک کو گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے خوف خدا دل سے نکلتا ہی جارہا ہے ..۔
خدا اے بے خوف والدین کے نافرمان بڑے چھوٹے سے بےادب بے لحاظ..اب یہ بھی کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی معیوب سمجھی جاتی ہے نجانے ہم اگلی نسلوں کیلۓ کیا معاشرہ چھوڑ کر جائیں گے اس دنیا سے اس میں ایک کمی دین کی تعلیم بھی ہے اور یہ بھت بڑی کمی ہے..ہم کو چاہیۓ که ہم خدا کے فرمان کلام پاک کو پڑہیں ترجمہ کے ساتھ اور گھر والوں کو بھی سنائیں اگر زیاده ٹائم نهیں هے تو ایک یت هی صحیح..مگر شروع تو کریں دیکھیں تو که پکا رب پ سے کیا که رہا ہے دوستوں کے پیغام تو بہت چا ؤسے پڑھتے ہیں کیا کبھی اس بٹت ہر بھی غور کیا که ہمارا رب ہم سے کیا فرما ریا ہے۔
ایک بار غور تو کریں بس ایک بار سوچیں سمجھیں پڑھیں یقین کریں مشکل زندگی آہستہ آہستہ آسان لگنے لگے گی کبھی غور کیا که یه بلاوجه کی بے چینی بے سکونی کیوں ہے دراصل یہ ہماری روح کا بوجھ بڑہھ جانے کیوجہ سے ہوتا ہے جب ہم پر گنایوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے تو سجون نهیں ملتا جب ایسا یو تو وضو کریں اور نماز پڑھیں اور پھر دعا میں سجدہ میں جاجر رب کی ہر نعمت کٹ شکر ادا کریں اور اپنے گناہوں نا فرمانیوں پر نسو نہاکر خود کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کریں یقین کریں خود کو بے حد ہلکا محسوس کریں گے اور نیند بھی اچھی اور پرسکون آۓ گی سچ تو یہ ہیکہ ہم ج کے اور نام کے مسلمان رہ گۓ ہیں بڑی بڑی گریاں لیکر گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور سنو تو تیسرا کلمہ بھی یاد نہیں ہم آ ۓ دن کسی نہ کسی بیماری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اس میں بھی ہمارا اپنا قصور ہے۔
دین سے دوری ایمان کی کمزوری والدین سے دوری رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں پرانے وقت میں کوئی تکلیف ہوتی تھی تو اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر انکو بتائی جاتی ان سے انکی تکلیف سنی جاتی آجکل.اپ ے فیس بک فرینڈز کو بتایا جاتا ہے ہمارے لیۓ والدین سے بھی زیٹدہ اہم ہیں ہمارے بارے میں ہمارے والدین کو بعد میں علم ہوتا ہے پہلے دوستوں کو خبر یوتی ہیکہ ہم کو کب کدھر تکلیف ہی اور ہم کس وقت کس جگہ ہوتے ہیں خدا جانے که ہم اتنے بیزار کیوں ہوتے جا رہے ہیں ہر چھوٹی بات بڑا مسلئه لگنے لگتی ہے ہر بات پر چیخ وپکار جھنجھلاہٹ کسی کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔
تحمل مزاجی ناپید ہوگئ ہے وقت کا ناچ گانا اور اسی میں سکون تلاش کرنا غلط ہے اپنے وسلدین کو گھر والوں کو بھی وقت دیں یہ انکا حق ہے آپ پر.. اور ضروری نہیں کہ ہر گانا سننا پ پر لازم ہے چاہے اس سے آپ کے ایمان کو خطرہ ہو الله کو یاد رکھا کریں دکھ میں بھی خوشی میں بھی اور اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیۓ سعر سپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہا کر اپنے دل کا باجھ ہلکا کریں یقین جانیۓ دل کا ہی نہیں روح کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاۓ گا۔
تحریر : شھنیلا حسین