گزشتہ کالم میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور طلبا کا مذہبی انتہا پسند جماعتوں کا آلہ کار بننے کی بات کی گئی تھی، لیکن کچھ باتیں تشنہ اور مکمل رہ گئی تھیں۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ وہ نوجوان جنھیں ساری توجہ اپنی تعلیم پر دینی چاہیے، اپنے کیریئر پہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، وہ دہشتگردی میں ملوث کیوں ہو رہے ہیں۔ ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے نعرے پہلے بھی لگتے تھے، لیکن شائستہ طریقے سے۔ لیکن اب معاملات دگر ہیں، اختلاف رائے ناقابل برداشت ہے۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلرز، کالجوں کے پرنسپل اور ڈائریکٹر آف کالجز کو مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ طلبا انصار الشریعہ جیسی جماعتوں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں جو نوجوانوں کو تشدد کی آگ میں جھونک رہی ہیں۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی سرگرمیوں پہ نظر رکھیں۔ کیونکہ ہر صورت میں نقصان انھی کا ہے۔ جب طلبا پکڑے جاتے ہیں تو والدین پہ کیا گزرتی ہے یہ ان والدین سے پوچھے جن کے جوان بیٹے دہشتگردی کی نذر ہوگئے۔
لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر والدین کا تعلق بھی انتہا پسند سوچ سے ہے تو کیا ہو گا؟ ساتھ ہی وائس چانسلرز، ڈائریکٹر آف کالجز، کالج پرنسپل اور پروفیسرز کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کتنوں کا تعلق انتہا پسند جماعتوں سے ہے۔ کیونکہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انتہا پسند جماعتیں بڑی پلاننگ سے اپنے کارندے ہر ادارے میں سیٹ کرواتی ہیں۔ تا کہ باآسانی اپنا کام کر سکیں۔ کیونکہ یہ لوگ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماہر ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
انٹرنیٹ پہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے دہشتگردی میں ملوث نوجوان جامعات سے فارغ التحصیل تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کراچی کی سرکاری اور پرائیویٹ جامعات کے وائس چانسلرز اور دیگر افسران کو دی گئی معلومات میں ایک سیمینار میں بتایا گیا کہ مذہبی انتہا پسندی اور تشدد دینی مدارس سے کالج اور یونیورسٹیوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ گویا دینی مدارس دہشتگرد تیار کرنے والی نرسریاں ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان نرسریوں کی داغ بیل ضیا الحق کے دور میں پڑی۔
افغان جہاد میں ڈالرز بنانے والوں نے نوجوانوں کو آگ میں جھونک دیا۔ خود ان دینی جماعتوں نے اپنے لخت جگر بیرون ملک پڑھنے کے لیے بھیج دیے اور خود دوسروں کے بچوں کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک کر ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے پہنچ گئے اور ان کے والدین کو جنت کی بشارت دے آئے۔ پتہ نہیں کیوں مذہبی جماعتوں کے سربراہ اور ان کے ساتھی خود کو کیوں جنت کی بشارت سے محروم رکھتے ہیں۔
طلبا یونین پر پابندیاں ضیا الحق نے اس لیے لگوائی تھی تا کہ طلبا سیاست دانوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔ لیکن ہوا یہ کہ طلبا یونین پر پابندی تو لگ گئی، لیکن طالب علم سیاست دانوں کے بجائے دینی مدارس اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں کی صفوں میں جا بیٹھے۔ جہاں ان کی ٹھیک ٹھاک طریقے سے برین واشنگ کی گئی اور انھیں صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ٹارگٹ دیا گیا جسے انھوں نے بخوبی پورا کیا۔ جب کبھی کسی ملک میں دہشتگردی کی اطلاع ملتی ہے تو پاکستانی غیر ارادی طور پر دعا کرتے ہیں کہ ’’خدا کرے کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ پاکستانی نژاد نہ ہو۔‘‘ کیونکہ ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔
افسوس اس بات کا بھی ہے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل ذرایع ابلاغ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ رپورٹر، سب ایڈیٹر اور کالم نگار سے لے کر ٹی وی کے میزبان اور اینکر پرسنز میں بھی انتہا پسند موجود ہیں۔ جو اپنا پروپیگنڈا بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں۔ اگر کوئی لکھاری، کوئی صحافی یا رپورٹر حق کی بات کرتا ہے تو اس کی شامت آ جاتی ہے۔
اول تو بعض اوقات تحریر ہی غائب کر دی جاتی ہے بصورت دیگر انتہا پسند مذہبی جماعتیں اپنے اپنے کارکنوں کو اس کام پر لگا دیتی ہیں کہ جس لکھنے والے نے یا بولنے والے نے سچ لکھا، حقیقت سے پردہ اٹھایا خواہ تشبیہ و استعارے کا سہارا لے کر اپنی بات کہنے کی کوشش کی تو اسے فون پر نہ صرف برا بھلا کہو، بلکہ گالیاں بھی دو، دھمکیاں بھی دو اور نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کے لیے بھی کہو۔ تاکہ وہ اپنا قلم قابو میں رکھ سکیں۔ لیکن جو قلم کا کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے باقاعدہ ممبر ہیں، انھیں ہر طرح کی سہولت حاصل ہے۔
مجھے اور آپ کو اجازت نہیں ہوگی کہ ’’مقدس گائے‘‘ کی خر مستیوں کا ذکر کریں، کشمیر میں دہشتگردی کے عوامل پہ بات کریں، طالبان کے دور میں گوتم بدھ کے تاریخی مجسموں کو مسمار کرنے کی بات کریں۔ کیا اس حقیقت کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سفاک ترین سلوک کی جڑیں کہیں بدھا کے مجسموں کی غارت گری سے بھی ملتی ہیں۔ نفرت بہت بری چیز ہے۔ اس کی چنگاریوں سے بہت کچھ بھسم ہو جاتا ہے۔
پڑھے لکھے اور ڈگری یافتہ نوجوانوں کا دہشتگردی میں ملوث ہونا انتہائی تشویشناک بات ہے۔ مہران بیس کا واقعہ یاد کیجیے، لاہور میں ہونے والے ایف آئی اے کے دفتر پہ دہشتگردی کو یاد کیجیے یا پشاور میں ہونے والے واقعات کی کڑیاں ملایے۔ پی آئی اے میں ہونے والی تباہی کو یاد کیجیے۔ یہ سب واقعات بتاتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کے رابطے تھے۔ یہ باآسانی واٹس ایپ پہ رابطہ رکھتے ہیں اور آسانی سے اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔
اب تک اتنا نقصان ہونے کے باوجود دہشتگردی میں کمی کیوں نہیں ہو رہی؟ اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک نصاب میں تبدیلی کی ہے۔ ان رجعت پسند اساتذہ اور دیگر انتہا پسندوں کی تبدیلی کا ایجنڈا سوٹ نہیں کرتا۔ جدید نصاب کو منافرت سے پاک ہونا چاہیے۔ مختلف مضامین کا نصاب ہر سطح پر چیک کیا جائے اور قابل اعتراض مواد کو نصاب سے خارج کر دیا جائے۔ تاریخ کو مسخ نہ کیا جائے۔ فتح کے ساتھ شکست کا بھی ذکر ہو۔
تاریخ صرف محمد بن قاسم سے ہی شروع نہیں ہوتی۔ نہ ہی طلوع اسلام سے بلکہ اس سے پہلے کی تاریخ بھی ہمارا ورثہ ہے۔ اسے بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ پہلے بادشاہ تاریخ لکھواتے تھے۔ آج مذہبی انتہا پسند جماعتیں ’’مقدس گائے‘‘ کی کھال پہ تاریخ رقم کروا رہی ہیں جس کے تحت صرف جو وہ کہیں وہی سچ ہے باقی سب غلط۔ کیا یہ رویہ تشویش ناک نہیں؟ دہشتگردی کے شیش ناگ پھن پھلائے بیٹھے ہیں۔