تحریر: شاہ فیصل نعیم
میں عام طورپر شادی بیا ہ کی تقریبات میں بہت کم جاتا ہوں اکثر گھر والوں کو بھیج دیتا ہوں تاکہ رشتہ داری خراب نا ہواور اگر جائوں بھی تو صرف ولیمے والے دن جاتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ آ ج کے ہمارے معاشرے نے جو ہندوانہ رسم و رواج اپنا لیے ہیں اور جو بے حیائی کا کلچر ہمیں ان رسومات میں دیکھنے کو ملتا ہے ان سے مجھے بے حد گھٹن محسوس ہوتی ہے اور دل کرتا ہے کہ اس دنیاسے کہیں دور بھاگ جائوں۔
میرے ایک قریبی رشتہ دار کی شادی تھی اورمیں چاہتے ہوئے بھی اُسے نا نہیں کہہ سکاکیونکہ صاحبِ بارات خود کارڈدینے آیا ہوا تھا شادی میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ زندگی کے ایک نئے سبق سے کم نہیں تھا۔ مہندی والی رات تھی ،لائٹ بند تھی، ناچنے گانے والے بنے سنورے بیٹھے تھے کہ ابھی لائٹ آئے اور ہم اپنے گُھنگھروں کی چھنکار اور اُبھرتے شباب سے آج کی رات اپنے نام کر لیں ۔ لائٹ تو نا آئی لیکن اتنے میں دوسرے محلے سے آہ وبکا کی صدا آئی اور فضا ماتم سے گونج اُٹھی۔
پتا چلا کہ فلاں گھر کی جنت اُن سے روٹھ گئی ہے۔ایک طرف یہ منظر تھا اور دوسری طرف اب یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اب مہند ی کا کیا کیا جائے ؟کچھ کہہ رہے تھے کہ عزت کا معاملہ ہے باہر ناچ گانا اور شورو غل نا کر و جو کرنا ہے گھر کے اندر ہی کر لو اتنے میں دولہے کہ ماں بولی:”کوئی مر گیا ہے تو ہم کیا کریں ؟ اب ہم اپنے بیٹے کی خوشی نا کریں ؟ جسے جا نا تھا چلا گیا ہے ہمیں اُس سے کیا غرض ؟ ہم تو پوری دھوم دھام سے مہندی نکالیں گے”۔
میںماں جی کے یہ الفاظ سن کر دنگ رہ گیا اور دل ہی دل میں کہا اُس ماں کی جگہ اُس جانے والی کی جگہ آپ کے خاندان کا کو ئی فرد بھی ہو سکتا تھا اُس کی جگہ آپ بھی ہو سکتے تھے ۔قارئین ہمارے جانے سے زمانے کو کوئی فرق نہیں پڑتا،زمانے کا کوئی کام نہیں رُکتا اور زمانہ اُسی ڈگر پہ چلتا رہتا ہے۔جب میں میڑک میں تھا تو ہمارے سر اکثر کہا کرتے تھے ۔
جہا ں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
اس وقت یہ مصرع سننے کو بہت اچھا لگتا تھا لیکن مطلب کا پتا نہیں تھا آج پہلی بار اس کے مطلب سے آشناہوا تو سننے کو دل نا چاہا۔۔۔۔۔!
تحریر: شاہ فیصل نعیم