.’.جوتوں کی سیاست ایک قابل مذمت رسم بنتی جارھی ھے اور اس میں ھمارا ہر سیا ستدان بھی قصوروار ھے جو سو شل میڈیا پر اتنی غلیظ ،گھٹیا زبان استعمال کرتا ھے اور پھر انکا سپورٹر دو ہاتھ آگے نکل جاتا ھے ،اور ایسا کچھ حالیہ واقعات میں ھوا ،خواجہ آصف کے وا قعہ کے بعد پنجاب حکومت کا یہ ”بہت بڑا سیکورٹی فیلئر” قرار دیا جا سکتا ھے اس واقعہ کو جوتا اچھالنے کا واقعہ قرار دے کر مٹی نہیں ڈالنی چاھے سابق دو وزراہے ا عظم اسی طرح نظر انداز کی جانے والی حرکتوں کے بعد حادثہ کا شکار ہووے حملہ آ ور شخص کا انداز بلکل خودکش حملہ آور جیسا تھا جس نے پہلے نعرہ لگایا اور پھر حملہ کیا اور ڈائس پر پہنچ گیا نواز شریف کے سیکورٹی اسٹاف کو بھی اسکا برابر کا ذمدار قرار دیا جاتا ھے جو مولویوں کے نرغے میں بے بس نظر آیا گوکہ نواز شریف پہ جوتا پھنکنے والے افراد کو پولیس نے حراست میں لیکرمقدمہ درج کر لیا ھے پولیس کے مطابق جوتا مارنے والا شخص محمد منور جامعہ نعیمیہ کا فارغ التحصیل طالب علم ہے۔ جسکے ساتھ اسکے دو ساتھی ،ساجداور عبدلغفور بھی با قا ئدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آزاد کشمیر آ کر مدرسہ میں پہلے سے موجود تھے جن کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ھے اور اس حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں کہاس شخص نے کس کی سازش سے اس حملہ کا ارتکاب کیا ،جامعہ نعیمیہ میں ہونے منقدہ تقریب کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف پر حملہ کے بعد تقریب میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگئا سابق وزیراعظم نواز شریف پر حملہ کرنے والا اگلی صف میں بیٹھا تھا جس کے ساتھ اسکے ساتھی بھی تھے جب نواز شریف خطاب کے لیے ڈائس پر آئے تواس شخص نے انہیں جوتا دے مارا جو سیدھا نواز شریف کو جاکر لگا۔ جوتا پھینکنے والے شخص نے ختم نبوت اور ممتاز قادری زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔اچانک ہنگامہ آرائی سے نواز شریف شدید گھبراہٹ کا شکار ہوگئے انہوں نے دونوں ہاتھ آگے لاکر مزید حملوں سے بچنے کی بھی کوشش کی۔ نواز شریف کے ہمراہ اسٹیج پر موجود لوگ اس اچانک حملے سے انتہائی پریشان ہوگئے اور شور شرابا ہوگیا۔جامعہ نعیمیہ کی انتظامیہ نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے جوتا پھینکے والے نوجوان کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا جب کہ تقریب میں موجود چند شرکا نے اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ واقعے کی وجہ سے سیمینار میں شدید بدمزگی پیدا ہوگئی۔ بعد ازاں نواز شریف بھی انتہائی مختصر سا خطاب کرکے واپس روانہ ہوگئے جبکہ تقریب کو بھی وقت سے پہلے ختم کردیا گیا۔اس واقعہ سے قبل پیپلز پارٹی کے راہنما ارباب نیاز ،ڈاکٹر شیر افگن نیازی ،محمود قصوری ،بھی ایسے واقعاتکا نشانہ بنے واضح رہے کہ یاد رہے کہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران ایک شخص نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینک دی تھی جسے وہاں موجود افراد نے پکڑ کر زد و کوب کرنے کے بعد پولیس کے حوالے کیاا۔گزشتہ ماہ 24 فروری کو نارووال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران ایک نوجوان کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا تھا تاہم خوش قسمتی جوتا ان کے قریب سے گزر گیا۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر جوتا اچھالے جانے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے شدید سیاسی مخالف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جوتا پھینکے جانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ عمل اخلاقیات کے خلاف ہے۔عمران خان نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کسی پر جوتے یا سیاہی پھینکی جائے تاہم خوشی ہے کہ اس میں تحریک انصاف کا کارکن ملوث نہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ نواز شریف پر جوتا پھینک کر گری ہوئی حرکت کی گئی، ایسی روایت سے سیاسی قیادت کے احترام کے لئے خطرات پیدا ہوں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ عدم برداشت کے کلچر کو فروغ نہیں دینا چاہیے، پیپلزپارٹی اس طرح کی گری ہوئی حرکتوں کے ہمیشہ مخالف رہی ہے، اس طرح تذلیل سے سیاسی قیادت کو عوام سے براہ راست رابطے سے نہیں روکنا چاہیے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے نواز شریف پر جوتا پھینکے جانے کے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ جوتا پھینکوایا گیا یا کسی نے خود پھینکا قابل مذمت ہے، سیاسی جماعتوں کو صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے، ایسی صورتحال میں کوئی جماعت یا گروہ سیاسی مجالس نہیں کر پائیں گی۔وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ملک بھر کے رہنماؤں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، نواز شریف کی مقبولیت سے خائف لوگ اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہیں، ایسی روایات قائم نہ کی جائیں کہ سیاست دان گھروں سے باہر نہ نکل سکیں۔سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سکندر حیات خان کا کہنا ہے کہ جوتا پھینکنا افسوسناک ہے، ایسے فعل سے پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نواز شریف پر جوتا پھینکے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ کسی کے اوپر بھی جوتا پھینکنا غلط اور غیر اخلاقی ہے۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر جوتا اچھالے جانے سے قبل ماضی میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک تقریب میں ایک بزرگ سردار شمیم خان صاحب نے صدر زرداری پر جوتا پھنکا تھا جس پر خوب لے دے ھوئی جوتوں کی سیاست کرنے والے جان لیں کہایسا واقعہ کبھی بھی کسی کے ساتھ رونما ہوسکتا ھے راولپنڈی کے فوارہ چوک پر جلسہ نما ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ عوام کی نواز شریف سے محبت میں شدت کی وجہ پتہ ہے، مجھے معلوم ہے آپ کو غصہ ہے اور جو آپ کے لیڈر کے ساتھ کیا گیا اس کا دکھ ہے۔مریم نواز نے کہا کہ گیدڑوں کے ڈر سے شیروں کے قافلے نہیں رکتے، شیروں کا مقابلہ جوتوں سے نہیں ہو سکتا اور گیدڑوں کے بزدلانہ وار کو سینے پر لینے والا نواز شریف ہوتا ہے۔مریم نواز نے کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نا آپ کا لیڈر دھرنوں سے پیچھے ہٹا اور نا سازشوں سے تاہم اب مخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے کہا کہ اوچھے ہتھکنڈوں پر تب ہی اترتے ہیں جب دلیل ختم ہوجاتی ہے، یاد رکھنا دشمن ہار مان چکا ہے۔عمران خان کا نام لیے بغیر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ایک مذمتی بیان دینے سے سمجھتے ہو کہ لوگ تمہیں معاف کردیں گے، تم نے 4 سال شرمناک کلچر پروموٹ کیا، کس نے کہا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس سے انہیں گردن سے پکڑ کے باہر نکالو۔مریم نواز نے مزید کہا کہ اس انسان کا نام لینے کی ضرورت نہیں اور وہ لیڈر کہلانے کا حقدار نہیں ہے جس کی سوچ، زبان اور فیصلے اپنے نا ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جوتوں کی سیاست. قابل مذمت رسم ”ھے اگر سیا ستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے سب بہت جلد جوتا کلب کے ممبر بن جائیں گے