تحریر : شاہ بانو میر
مجھے کچھ شاپنگ کے لیۓ دو تین شاپنگ سنٹرز جانے کا اتفاق ہوا٬ کرسمس کی آمد آمد ہے ٬خوب گہما گہمی تھی ہنستے کھیلتے بچےّ مُسکراتے اِٹھلاتے والدین کے ساتھ ہاتھوں میں کسی کے غُبارے تو کسی کے کھلونے ٬ کرسمس کی الگ روایت کرسمس فادر بھی ملے اور بچوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال کر سویٹس بھی لیں پکس بھی بنوائیں ٬
بہت بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز بہت بڑی تعداد میں خریدار اور اشیائے کی کثرت سے لبالب بھری شاپس ٬ کسی کے چہرے پے تفکر کی پرچھائیں نہیں دیکھی٬ کسی کو ہراساں نمدیدہ نہیں دیکھا خوبصورت ملبوسات میک اپ سے مزین چہرے بالوں کی تراش خراش سے اندازہ ہو رہا تھا ٬کہ ویک اینڈ آتے ہی جاب سے متعلقہ لوگ کرسمس کی تیاریوں میں بھرپور انداز میں شرکت کر رہے ہیں٬
ایک شاپنگ سنٹر سے نکلے اور ایک اور بڑے شاپنگ سنٹر گئے وہی رونق وہی ماحول یہاں بھی تھا ٬ شاپس کو خوبصورت لائٹس کے ساتھ یوں سجایا گیا تھا کہ کہ کچھ نہ بھی خریدنا ہو تو انسان مبہوت سا ہو کر ان کی ہر سال نئی سجاوٹ کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا٬ ہر شاپ پے موجود عملہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ آپکو یوں خوش آمدید کہتا ہے گویا آپ سے زیادہ انہیں کوئی اور عزیز ہی نہیں٬ گہما گہمی کا ماحول ہے ٬ بلند و بالا عمارتوں کو اس قدر خوبصورتی سے مختلف انداز میں سجایا گیا گیا ہے کہ ڈرائیونگ کرنے والا شائد کئی بار سڑک پے جاری سست روی سے چلنے والی ٹریفک کو بھول کر اس کی دلکشی میں گم ہو جاتا ہے
ہارن یہاں باِلعموم بجائے نہیں جاتے مگر ٹریفک کا معاملہ بالکل برعکس ہے یورپین قوم کی بے صبری دیکھنی ہو تو دورانِ سفربس ذرا سی بے قاعدگی کر لیں
اس کے بعد جو طوفانِ بد تمیزی آپکو سنائی دے گا کہ کانوں پڑی آواز سننا مُحال ہوگی ٬ اس قدر ہارں بجائے جائیں گے ٬ کہ گویا آپ نے ان کا ہفت اقلیم کا خزانہ چھین لیا ہو٬ بے ضابتگی بے قاعدگی یہ ذرا بھر برداشت کرنے کے عادی نہیں٬
دنیا بھر میں معروف یہ فرانس کی عمارتیں جن کے جدید انداز تعمیر انسانی سوچ کی بلندی کی معترف ہیں ـ دل لُبھا دینے والے آرائشی اشیاء کے ساتھ ان کا حسن دوبالہ کرتے ہوئے آپ کی حس کو تسکین بہم پہنچا رہی تھیں ٬ پہلے شعور نہیں تھا اب قرآن نے ذرا ذرا سوچنا سکھایا ہے تو اب ایسی ہر نشانی دیکھ کر اپنے سچےّ ربّ پے بیحد پیار آتا ہے کہ اس نے ایسے ایسے انسان پیدا کیے جو اس کی تخلیق ہیں اور دنیا ان کی بنائی ہوئی چیزیں دیکھ کر ربّ کی تسبیح کی بجائے ان بندوں کی تعریف کرتی ہے٬ مجھے شاپنگ کرتے ہوئے غیر محسوس سی بیچینی ہو رہی تھی ذہنی کشمکش جو سمجھ نہی آ رہی تھی٬
لیکن گھر آتے آتے جو ذہنی ادھیڑبُن تھی وہ سلجھ گئی تکلیف دہ حقیقت ہے لیکن یہ سچ ہے یہ لوگ غیر اسلامی ہیں ٬ دنیا بھر کی ناجائز اشیاء با افراط مل جاتی ہیں سوچ کی آزادی لباس کی کام کی بولنے کی عمل کی غرضیکہ ہر طرح کی آزادی کا حامل یہ معاشرہ انفرادی طور پر بے شک نفسیاتی مسأئل کی گھمبھیر الجھنوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے ٬ ہر انسان خود میں کیا ہے؟ وہ اسی کو اپنی سوچ کا محور رکھتا ہے٬ ذات کی تنہائی یہاں کا المیہ ہے جس کا شکار یہاں کا ہر دسواں انسان ہے٬
اپنی تنہائی اداسی پریشانی کا ذمہ دار وہ دوسرے کو نہیں سمجھتا کیونکہ دوسرے کی زندگی میں اس نے کچھ برا نہیں کیا لہٰذا اس کے لئے بھی کسی نے کچھ ایسا نہیں کیا کہ جس کی وہ شکایت کرے٬ یہاں سب کو اپنی ذات سے غرض ہے٬ دوسرا کیا کر رہا ہے اس سے اسے کوئی غرض نہیں ٬ اعلیٰ معیارِ زندگی اپنانا ہے٬ یہی ان کی قسمت ہے جو قرآن میں بیان کر دی گئی ہے٬ دنیا کو ان کے لئے مزید خوشنما بنا دیا گیا کیونکہ ان کی سوچ کا ہدف ہی یہاں کی عارضی زندگی ہے٬ یہ لوگ ہمارے لحاظ سے بہت الگ ہیں اور شائد بہت غلط طرزِ معاشرت کے حامل اقدار کے مالک لیکن جنہیں ہم خاندانی نظام سے فارغ سمجھتے ہیں٬ جنہیں ہم مادر پِدر آزاد سمجھتے ہیں
وہ لوگ آج مجھے تینوں شاپنگ سنٹرز میں ایک سوچ ایک خوشی ایک انداز میں اپنی عید کی تیاریاں کرتے دکھائی دیے٬ لیکن ہم لوگ جو دعویدار ہیں بہترین مذہب کے آخری کتاب کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جییس عظیم ہستی کے وارث ہونے کے امت ہونے کے آخر ہم کیا ہیں؟ عیدین ایک سے دو ہوئیں اب تین تین ہو رہی ہیں قوم کی مِلّت کی امت کی طاقت ایک،سوچ ایک ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کسی بات کا اہتمام ہے آخر وہ کونسا دن ہمارے علمائے اکرام ہماری دنیا میں لا سکیں گے جب خود ان کی مذہبی جماعتی علاقائی مذہبی اجارہ داری کی سوچ تبدیل ہو کر صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی پیغام تک محدود ہوگی؟
ہم نے دیکھا ایک دینی عالم اسلام آباد جاتے ہیں 100 دن تک قیام کے دوران کوئی بے ضابتگی بے قاعدگی دیکھنے کو نہیں ملتی ٬ مختلف علاقوں کے مختلف زبانوں کے اور مختلف قبائل کے لوگ ان کے ساتھ ہیں ٬ یہ ہے وہ انداز خدمت جو آج کے علمائے اکرام نہیں کر رہے خُدارا سیکھیۓ ان مشرک معاشروں سے یہ سب خوبیاں یہ سب طاقت ہماری تھی جسے ہم نے کھو دیا اور آج تہی دست ہوۓ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں٬
غیرت حمیت کے اسباق بھول کر غیروں کے پیروں کی دھول بن کر اپنی شناخت بھول بیٹھے ٬ سبق سیکھنا ہے تو ایک دن باہر نکلئے اور ان کی خوشی دیدنی ہے وہ ملاحذہ کریں ٬ ئ کوئی فرقہ نہیں کوئی تفریق نہیں کوئی ابہام نہیں کیونکہ 25 دسمبر ان کی عید کا دن ہے سب کی عید کا آخر ہم سب کب ایسی عید منائیں گے؟ عمران خان جس دن ہم سب کو ایک کر کے ایک دن ایک ساتھ آپ نے عید منا لی یقین مانئے وہی دن ہوگا جب بنے گا نیا پاکستان
تحریر : شاہ بانو میر