تحریر : وقار انسا
یہ شارٹ کٹ انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسی لئے توہر معاملے میں شارٹ اپنانے کو ترجیح دی جاتی ہے – اور اس کے پیش نظر مقصد یہ ہوتا ہے کہ کم وقت میں مطلوبہ ہدف حاصل کر لینا اس کی ایسی عادت انسان کو پڑ جاتی ہے کہ کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں شارٹ کٹ لیتا ہے -اکثر کسی بڑے مقصد اور بڑی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسے ذرائع ڈھونڈھتا ہے جس پر اسے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے اور باآسانی اس کا کام ہو جائے عام معاملات میں تو اس سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے مثلاسفر کی حد تک تو یہ بات درست ہے کاموں کے بارے میں بھی یہ معاملہ ٹھیک لگتا ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے کام بھی ہو جائے اوروقت بھی بچ جائے یہ ریڈی میڈ مصالحہ جات بھی تو شارٹ کٹ ہیں جی ! سہولت ہو گئی۔
پہلے وقتوں میں خواتین سل پر پیستی تھیں مشینی دور نے انسان کو سہولتیں دے دیں جس سے اس کا وقت بچ جاتا ہے ہاں یہ بات اور ہے کہ اس دور میں بھی وقت کی تنگی کا مسئلہ در پیش رہتا ہے جب کہ نہ تو اس دور میں چکی پر اناج پیسا جاتا ہے اور نہ ہی سوت کاتا جاتا ہے کہ اس سے کپڑے تیار ہوں اس کام کے لئے کھڈی کام کرتی ہے وقت کی کمی کا رونا اس کے باوجود بھی ہے جبکہ پیدل سفر بھی نہیں تانگہ اور گاڑی سے لیکر سفر کی آسانی کے لئے ہوائی سفر کئے جاتے ہیں – پہلے دور کی سادہ زندگی تھی اس کو رنگین اور مصروف بنانے کے لوازمات نہیں تھے- جو آج کل کے دور کے ہیں لوگ کام کے ساتھ اپنا آرام کا وقت بھی نکال لیتے تھے اور عبادت کا بھی موجودہ دور کی سہولتیں ترقی کی کی علامت ہیں اور ان کو اپنانے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ لوگ عبادت میں بھی شارٹ کٹ لینا چاہتے ہیں۔
روزانہ پنجگانہ نماو نہ پڑیں گے بلکہ قضائے عمری پڑھ کر سال کی نمازوں کو پورا کر لینے کی خوش فہمی میں رہیں گے اگر ایسا ہوتا تو روز کی پانچ نمازیں فرض نہ ہوتیں ! کم وقت میں عبادت سے فراغت پاکر دنیاوی جھنجھٹوں کو فوقیت دینے لگتے ہیں- اور توقع زیادہ اجر اور ثواب کی رکھتے ہیں خا لق اور اس کی مخلوق کے درمیان بہت پیارا اور قربت کا تعلق ہے اللہ اپنی محبت کی نظر اپنے بندوں پر رکھے ہوئے ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے مانگے لیکن بندے قرب الہی پانے کے لئے نہ تو زیادہ وقت لگا پاتے ہیں- اور نہ ہی اس قادر مطلق کے کسی فیصلے کا انتظار کر پاتے ہیں کیونکہ توکل کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
انسان جونہی کسی آزمائش سے دوچار ہوتا ہے ان کی نظریں راہیں تلاش کرنے لگتی ہیں اور وہ اس سے جلد چھٹکارہ پانا چاہتا ہے وہ اس کا جلد تدارک چاہتا ہے اور نتیجتا شارٹ کٹ اختیار کرتا ہیاور یہ شارٹ کٹ اسے خالق سے دور اور پیر فقیر اور اس کے بعد عاملوں کے قریب کر دیتے ہیں وہ تعویذ دھاگوں سے پریشانی اور آزمائش سے چھٹکارہ پانا چاہتا ہے اللہ کی ذات سے زیادہ اللہ کے کسی بندے پر زیادہ بھروسہ کر کے گناہ کبیرا کا مرتکب ہوتا ہے وہ وظائف کو اپنا کر پریشانی سے نجات چاہتا ہے لیکن حضور قلب سے اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجود نہیں ہوتا – اپنے تباہ ہوتے کاروبار کو بچانے کے لئے وہ بکروں کے چڑھاوے تو چڑھا آتا ہے اور جھوٹے عاملوں کے کہنے پر دولت لٹاتا رہتا ہے۔
لیکن وہ رقم اور وہ بکرے وہ صدقہ کر کے اپنی پریشانی سے نجات رب سے نہیں مانگتا کسی کو دعا کا تو کہتا ہے اور دعا کروانے کے لئے بہت خرچ اور اہتمام بھی کرتا ہے لیکن خود گڑ گڑا کر دعا مانگنے اور اپنا سر خدائے بزرگ وبرتر کے آگے جھکانے کا وقت نہیں دنیا کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ اپنی پنجگانہ نماز سے بھی غافل ہے جب دنیا کی محبت اسے عبادت کا وقت نہیں دیتی تو پھر اللہ اس کی رسی کو ضرور کھینچ لیتا ہے۔
صحت کی خرابی ہو کاروبار کی ناکامی اولاد کی طرف سے آزمائش آجائے تو شارٹ کٹ کے شوق میں گناہ کبیرا کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے ان معاملات میں بہتری آنے لگے تو کسی ذات سے منسوب کر کے شرک کر بیٹھتا ہے کہ جس کی کوئی معافی نہیں اور مشرک کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی بقیہ آئندہ حصہ دوم میں پڑھیے۔
تحریر : وقار انسا