تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی
سیدنا امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارہویں فرزندہارو ن بن امام موسی کاظم کو ہارون ِ ولایت کہا جاتا ہے۔ آپ اور امامزادہ اسماعیل، امامزادہ حسن بن موسیٰ کاظم ایک والدہ سے تھے جبکہ امام علی رضا، امامزادہ ابراہیم بن موسیٰ، عباس بن موسیٰ اور امامزادہ قاسم بن موسیٰ کاظم ایک والدہ سے تھے۔ سیدنا امامزادہ ہارون ولایت کے نام گرامی کے تقدس کے پیش نظر صوبہ اصفہان کا ایک ضلع ہارون ولایت کہلاتا ہے۔ حضرت ہارون ولایت کا مزار ضلع ہارون ولایت کے قدیمی بازار گلبہار کے پیچ و خم میں علی مسجد کے مقابل واقع ہے اور قدیمی مقابر میں سے ہے۔
علی مسجد ١٥٠٢ سے لے کر ١٥٢٤ ء کے درمیان تعمیر کی گئی اور کچھ روایات کے مطابق شاہ اسمعیل صفوی کے دور حکومت میں مکمل ہوئی۔ علی مسجد کے نام سے متعلق کافی روایات پائی جاتی ہیں جن میں مشہور و مصروف روایت عباسی استعمارکے خلاف چلائی جانے والی تحریک بتائی جاتی ہے۔ کچھ صاحبان اسے سلطان ِسنجر کا کارنامہ بھی گردانتے ہیں مگر تحقیق و حقیقت اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ تاریخی روایات ہی صحیح ہیں۔ علی مسجد کے ساتھ ایک پچاس فٹ مینار تعمیر کیا گیا جسے علی مینار کہا جاتا ہے۔ خوبصورتی سے تعمیر کیا جانے والا مینار ضلع ہارون ِولایت میں ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ علی مسجد اصفہان کے آثار قدیمہ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔
ضلع ہارون ولایت جو کہ اصفہان کے جنوب میں واقع ہے میں پائے جانے والے آثار قدیمہ انتہائی قیمتی نوادرات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں مقبرہ حضرت امامزادہ ہارون ولایت علی مسجد ، علی مینار، مدرسہ سلطان سلجوق اور امامزادہ جعفر نمایاں تاریخ کے حامل ہیں۔حضرت امامزادہ ہارون ولایت کا مزار بھی شاہ اسمٰعیل صفوی اول کے دور کی یاد گار ہے۔ ٩١٨ قمری میں تعمیر کیا جانے والا یہ مقبرہ کاشی کاری کا بہتری نمونہ ہے۔ مزار کی ساخت، گنبد، ضریح او ر رواق انتہائی خوبصورتی سے تعمیر کئے گئے ہیں مزار کے دو صحن ہیں جو شمال اور مغرب میں واقع ہیں۔ مغرب کی جانب ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس میں حجرے بنے ہوئے ہیں جو کہ کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔
گنبد فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے جسکے اندر سونا اور چاندی چڑھائی گئی ہے۔ گنبد کی تعمیر ١٣٣٨ ق میں مصروف ایرانی کاریگر استاد علی معمار کی زیر قیادت تکمیل پائی۔ مزار کے اندر چہاردہ معصومین کے اسمائے گرامی اور یہ حدیث مبارکہ درج ہے ؛ قال النبیۖ انا مدینة العلم و علی بابھا وانت من بمنزلة ہارون من موسی نبی علیہ السلام نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں اور آپ میرے لیے ویسے ہیں جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی منزلت۔ مزار کا داخلی دروازہ خط ِ نستعلیق و خط ِثلث میں کی جانے والی لکھائی سے مزین ہے۔
ائمہ اثنا عشر پر صلوٰة کے ساتھ ساتھ تعمیر روضہ اور ہارون ِولایت کی شان میں کہے گئے اشعار دروازے کی زنیت ہیں۔ گنبد کے اوپر فیروزے کا کام کیا گیا ہے اور اس میں سورة مبارکہ فتح کی آیات کندہ ہیں۔ مزار کی محراب کے اندر سورة دہر، سورة شمس ، سورة تکاثر ، سورة نصر، سورةاخلاص اور اسمائے الٰہی نہایت نفاست و خوبصورتی کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔بحیثیت مجموعی حضرت امامزادہ ہارون ِولایت کا مزار انتہائی خوبصورتی سے تعمیر کیے جانے والے مزارات میں سے ہے۔
حضرت ہارون ولایت کے مزار پر انوار پر کہے گئے اشعار علماو فضلا، فقہاو عارفین نے آپ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت بصورت اشعار پیش کیا ہے۔ کہ شد در بہ ہارونیہ انسان تمام بود روضہ آل ِخیر الانام حضرت ہارون کے در پہ آکر انسان کامل ہوتا ہے کیونکہ آپ خیر الا نام ( حضرت محمد مصطفیٰۖ ) کی آل کا روضہ ہے۔ درگاہ تو قبلہ گاہِ جان است محراب ِزمین و آسمان است آپ کی درگاہ قبلہ گاہِ جان ہے اور آپ زمین و آسمان کی محراب ہیں۔
دربہ مسجد ِہارون پور ِموسیٰ بن جعفر آں کہ جبریل آید بردرش بہ دربانی
گشتہ بود مستعمل تا کہ ہمت ِمرشد طرح ِتازہ از نور یخت بہر دربانی
چون تمام شد شوقی گفت بہر تاریخش مرشد آمدہ در م از برای دربانی ١٣٣٠
ہارون !پور ِموسیٰ بن جعفر کی مسجد کے دروازے میں جہاں کہ جبرائیل دربانی کے لیے آتے ہیں میںچاہتا ہوں کہ دربانی کروں اور ایک نئی نورانی طرح دربانی کے لیے استعمال کروں۔چونکہ شوق اتمام کوپہنچ چکا تھا لہٰذا مرشد ( شاعر کا تخلص) زندگی میں آپ کے درپہ دربانی کے لیے حاضر ہو گیا ہے۔
دربارکے رواق میں کندہ کیے گئے اشعار ایک طویل نظم کی صورت میں آپ کی آمد، مقصد قیام اور پیغام حق کی ترجمانی کو بیان کرتے ہیں۔ فارسی زبان میں یہ اشعار یوں کندہ ہیں؛
در زمان ِدولت ِخاقان داؤد اعتبار کہ سلیمان وار دایں دور دین آرا ستی
صاحب انفاس روح و حامی شرع حبیب آنکہ بد خواہش بفطرت قائل یکتا ستی
بہ اعتبار روایات خاقان داؤد ( عباسی گورنر) کے زمانہ ( گورنری) میں آپ بہ مثل سلیمان (شاہانہ اندازسے ) تبلیغ ِدین کی خاطر تشریف لائے۔ آپ صاحب ِانفاس روح اور حبیب ِخدا محمد مصطفٰی کی شرع کے حامی و مبلغ تھے اور لوگوں کو اس پر قائل کیا تھا۔
داور ِدنیا و دیں شاہنشاہ ِصاحبقران آں سکندر حشمتی کاندر جہاں دارا ستی
نامور فتح علی شاہ آں کہ از عدل و عطا مادمی آثار ماتم کا سر کسراستی
آپ شہنشاہ صاحب ِقراں تھے اور دین و دنیا کے داور تھے۔ سکندر حشمت اور جہاں داری کی خصوصیات کے ساتھ صاحب ِجودو عطا تھے۔
آں کہ اندر ماتم اسباط ِ پیغبر مدام دیدہ حق بین او پیوستہ خون مالا ستی
سروری کردایں کہنہ انور در جہاں کہ از سما وجود اور مشہور در دنیا ستی
آپ اسباطِ پیغمبرۖ (یعنی حسنین کریمین ) کے ماتم میں منہمک رہے اور حق آپ کے خون میں پیوست تھا۔ آپ نے دنیا پہ سروری و تاجداری کی کہ آپ کی سخاوت اور جودو عطا سب میں مشہور تھی۔
مدفن ِہارون بن موسیٰ کہ خاک ِدرگاہش نور بخش ِچشم آں کہ عارف و دانا ستی
بقعہ ٔہارونی است و نور ِدست ِموسوی از جبین ِپاسبانان ِدرش پیداستی
حضرت ہارون بن موسیٰ کا مدفن اور آپ کی درگاہ کی خاک ،عارفین اور داناؤں کی آنکھوں کا نور ہے اور بقعہ ٔ ہارونی آپ کے ہاتھوں کا نور جبینوں میں روشنی پیدا کرتا ہے۔
ایں نہ آں ہارون کہ موسیٰ رابرادر بودہ است موسیٰ اندر ماتمش گریہ و غو غاستی
ساکنانِ عرش ِاعظم برفرازش گفتہ اند صورتی در زیر دارد آں چہ در بالا ستی
یہ برادر ِموسیٰ ہارون نہیں بلکہ یہ وہ موسیٰ ہیں (موسیٰ کاظم ) جن کی تمام زندگی ماتم و گریہ اور غم میں گزری ہے۔ عرش ِاعظم کے مکین عرش سے پکارتے ہیں کہ ہماری صورت ِمعلی تو نیچے ہے آپ اوپر کیا کرتے ہیں۔
بضعہ موسیٰ درایں مدفون و عیسیٰ درفلک گو ید ایں کہ آفتاب از مشرقش پیدا ستی
سال ِاتمامش قمرو کلک ِہادی برورق کعبہ ٔدیں بقعہ ٔہارون بن موسیٰ ستی
موسیٰ کاظم کے ٹکڑے یہاں مدفون ہیں اور عیسیٰ فلک پہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آفتاب مشرق میں پیدا ہو گیا ہے اور ہادی آخر میں ورق پہ لکھتا ہے کہ دین کا کعبہ ہارون بن موسیٰ کا مزار ہے۔
سنگ مرمر کے ایک ٹکڑے پر خطِ ثلث میں یہ آیت کریمہ لکھی گئی ہے۔ کلُّ شئیٍ ھَالِک اِلاَّ وجہُة،ہر چیز کو ہلاکت ہے سوائے وجہ اللہ کے اور اس کے نیچے یہ اشعار کندہ کیے گئے ہیں؛
زین سپہر ستیزہ گرفریاد کہ از او نام مہر مفقود است
تازہ سروی زگلشن ِاحمدۖ کہ باسم و برسم محمود ست
خامہ از بہر سال رحلت او کہ از او ایں رقیمہ مقصود است
خط ِ تاریخ خواست مسکین گفت سطح جنت مقام محمود است
ان کے نام کے سامنے چاند کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ گلشن ِاحمدۖ کے تازہ ثمر ہیں اور آپ کانام نامی وجہ تحمید ہے اور آپ کا ر وضۂ اقدس جنت و مقام محمود ہے اور یہی مسکین کہتا ہے۔
تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی
مہتمم جامعہ عثمانیہ شہانہ لوک ضلع منڈی بہاء الدین