ایک سوداگر تھا اسکی بیوی بہت خوبصورت تھی، اس کے حسن کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوۓ تھے لوگ اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب رہتے تھے. سوداگر یہ بات جانتا تھا اس لئے اس نے اپنی بیوی پر پابندیاں لگا رکھی تھیں. سوداگر نے اپنے تمام ملازموں کو اپنا جاسوس بنایا ہوا تھا. سوداگر کو بیوپار کے سلسلے میں دودو تین تین سال تک دور دراز کے ملکوں میں رہنا پڑتا تھا اس وجہ سے اس کو اپنی بیوی کی طرف سے بہت فکر رہتی تھی. ایک بار وہ ایسی ہی ایک تجارتی مہم پر جانے والا تھا کہ ایک رات پہلے وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور بولا: جان من! میں جانے سے پہلے تمہیں ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں جو ہمیشہ تمھارے جسم کے ساتھ چپکا رہے گا اور تمہیں میری یاد دلاتا رہے گا، یہ کہ کر سوداگر نے ایک لوہے کا کمر بند اس کی کمر کے گرد لپیٹا اور اس کو تال لگا دیا اور چابی اپنے گلے میں ڈال لی، یہ چابی میں اپنے گلے میں ڈال کے رکھوں گا اس کی وجہ سے میں تمہیں ہر وقت اپنے قریب محسوس کروں گا. سوداگر کی بیوی لوہے کے کمر بند کو دیکھ کر سمجھ گئی کہ اس کے شوہر نے اس کو بدکاری سے دور رکھنے کے لئے یہ اس کے گرد لگایا ہے یہ سوچ کر وہ رونے لگی، اور شوہر سے بولی، آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے اس لئے آپ نے یہ سب کیا ہے میرے ساتھ کیا میں نے پہلے کبھی کوئی ایسی حرکت کی ہے یا آپ کو شکایت کا کوئی موقه دیا ہے میں آپ سے محبت کرتی ہوں. شوہر نے کہا، مجھے تم پر اعتماد ہے لیکن زمانہ بہت خراب ہے لوگ اکیلی عورت کو دیکھ کر اس کےساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں میں نے اب تمہیں ان لوگوں سے محفوظ کر دیا ہے اب کوئی بھی تمہیں نقصان نہی پہنچا سکتا. سوداگر تو چلا گیا لیکن اس کی بیوی سخت تکلیف میں تھی جسمانی بھی اور ذہنی بھی. کمربند کی وجہ سے وہ خود کو ایک قیدی سمجھنے لگی تھی اور وہ سوچتی کہ میں کوئی اس کی غلام تو نہیں ہوں جو اس نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے. اور یہ سب اس کے بے پناہ حسن کی وجہ سے تھا. اگر وہ اتنی حسین نہ ہوتی تو اس کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا وہ اپنے شوہر کے سلوک کو یاد کر کہ اور اپنے حسن کو آئینے میں دیکھ کر بھر افسردہ ہو جاتی تھی. بند کھڑکیوں اور دروازے سے باہر اسے کتنے ہی لوگوں کی آوازین سنائی دیتیں جو اس کے حسن کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے لیکن وہ کبھی باہر نہیں جھانکتی تھی کیوں کہ وہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھی ان آوازوں کو سن کر اس کے ملازم بھی چوکنے ہو جاتے تھے. مگر کبھی کبھی اس کا دل کرتا کہ وہ کھڑکی کھول کر اپنے عاشقوں کو دیکھے. لیکن کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا کہ اس کے عاشقوں میں کوئی بھی اتنا بہادر نہیں ہے کہ وہ اس محل کی اونچی دیواریں پھلانگ کر آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے. کبھی کبھی وہ اپنے اس خیال سے بہت تسکین حاصل کرتی کہ کوئی آئے اور اسے اغوا کر کہ لے جائے کہیں بہت دور جہاں سے کوئی اس کو نہ دیکھ سکے. مگر جب وہ کسی مرد سے جسمانی تعلق کا سوچتی تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے کہ اس کمربند کی وجہ سے وہ کسی مرد کے کام نہیں رہی تھی. ایک مرتبہ سوداگر کی بیوی کے کانوں میں کسی گانے والے کی آواز آئی اس کی آواز میں ایسا درد اور سوز تھا کہ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے ملازموں کو اپنے زیور دئے اور کہا کہ اس گانے والے کو بلا لو میں اس کا گنا سننا چاہتی ہوں مجھے میرے شوہر کی بہت یاد آ رہی ہے، وہ اس علاقے کا مشھور گانے والا تھا اس کی آواز میں بلا کا جادو تھا لوگ اس کی آواز سن کر وجد میں انے لگتے تھے. لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ اس کا عاشق تھا اور اس طرح بلائے جانے پر اس کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی محبوبہ اس کے سامنے ہے. اس نے پوچھا، اے حسینہ عالم، میں آپ کی کون سی خدمت سر انجام دے سکتا ہوں؟ سوداگر کی بیوی اس گانے والے کے مردانہ حسن پر پہلی ہی نظر میں عاشق ہو گئی تھی لیکن وہ ملازموں کی موجودگی میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتی تھی. اس نے گانے والے سے کہا کہ، میں اپنے شوہر کے غم میں پریشان ہوں جس کے لوٹنے کی ابھی دو تین سال تک کوئی توقع نہیں ہے تم مجھے کوئی ایسی غزل سناؤ جس سے میرے دل کو تسلی ملے. اس نے اس کو ایک بہت ہی درد بھری پرسوز آواز میں غزل سنائی جس کو سن کر وہ بہت حد تک مطمئن ہو گئی تھی اس غزل میں گانے والے نے اپنے دل کی بات بھی اس کو بتا دی تھی. الغرض اب وہ روز ہی اس سوداگر کے گھر آنے لگا تھا اب ملازموں کو بھی تسلی ہو گئی تھی کہ وہ اپنے شوہر کی ہی وفادار ہے. ایک دن سوداگر کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ آپ کی آواز میں اس قدر سوز کیوں ہے؟ کیا تم کسی سے محبت کرتے ہو؟ گانے والے نے کہا، میرے والدین بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے اور میں جب سے ہی ادھر ادھر گھوم پھر کے گانے گاتا ہوں مجھے موسیقی سے دلی رغبت ہے. مئی نی بیشمار عورتیں دیکھی ہے مگر میں کبھی کسی کے عشق میں مبتلا نہیں ہوا مگر یہ سچ ہے کہ تمہے دیکھنے سے پہلے ہی تمہارا ذکر سن سن کر میرے دل میں تمہاری چاہت پیدا ہو گئی تھی. ابھی وہ اپنے دل کی بات پوری بھی نہ کر سکا تھا کہ سوداگر کی بیوی نے اسے وہیں روک دیا. اس نے کہا، میں تمھارے جذبات سمجھ سکتی ہوں مگر میں اپنے شوہر کی پاکدامن بیوی ہوں میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی کہ تم کبھی کبھی یہاں آجایا کرو. تمھارے گانے سے میرے شوہر کی یاد تازہ رہتی ہے. ایک دن وہ تنہائی میں اس کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اپنے دل کی بات کر کہ وہ زار زار رویا تھا کئی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ دونوں اپنے جذبات میں بہت کچھ کر جانے کے خواہش مند ہوتے مگر سوداگر کی بیوی اپنی کمر کے گرد لگے اس تالے کی وجہ سے اسے اپنے جسم کے قریب نہ انے دیتی تھی. پھر ایک دن وہ دونوں جذبات کی رو میں اس حد تک بہ گئے کہ سوداگر کی بیوی نے بھی اس سے اپنے دل کی بات کہ دی اور ساتھ ہی اس نے اپنی کمر سے لگے اس تالے کا بھی ذکر کر دیا جس کو سن کر گانے والے کو بہت غصہ آیا اس کا بس نھے چل رہا تھا کہ وہ کس طرح اس کو آزاد کرائے. اس نے سوداگر کی بیوی کو کئی طریقے بتائے جس سے وہ کمربند سے آزاد ہو سکتی تھی مگر اس نے اس کی ایک بات نہیں مانی جس سے وہ گانے والا بہت غمزدہ ہوا اور پھر وہ کئی مہینے اس سے ملنے نہیں آیا. پھر ایک دن وہ اچانک آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک جری بوٹی تھی اس نے بتایا کہ مجھے یہ بڑی دور سے لانی پڑی تم اس کو روزانہ کھاؤ گی تو تمہاری کمر پتلی ہو جائے گی اور یہ کمر بند کھل جائے گا، سوداگر کی بیوی نے وہ کھانا شروع کر دی. ایک دن وہ تالاب کے کنارے ٹھل رہے تھے کہ لوہے کا کمر بند اس کی کمر سے گر کر نیچے آ گیا وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اپنے پاؤں سے اسے ٹھوکر مار کر پھینک دیا ابھی وہ خوش ہو ہی رہے تھے کہ باہر سے کسی کے آنے کی اطلاع ملی اس نے اس آدمی کو بلوا بھیجا اس نے اتے ہی کہا، یہ سرے صندوق ہیرے جواہرات سے بھرے ہوۓ ہیں آپ کے شوہر نے ان کو آپ کو دینے کے لئے کہا تھا آپ کے شوہر کو ایک سانپ نے کاٹ لیا تھا ان کا انتقال ہو چکا ہے آپ کا نام آخری سانس تک اس کی زبان پر تھا مرنے سے پہلے ایک چیز اور تھی جو اس نے دینے کے لئے کہا تھا ، وہ چابی تھی. اپنے شوہر کی موت کی خبر سن کر اس کی بیوی کو بہت رنج ہوا اور اس نے گانے والے کو یہ کہ کر بھیج دیا کہ وہ اپنی باقی کی زندگی اپنے شوہر کے ہی نام پر گزارنا چاہتی تھی.