تحریر: عارف کسانہ
حکومت پاکستان نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بہادری،دلیری اور حوصلہ مندی کا جو مظاہرہ کیا تھا اس کے اعتراف کے طور پر مارچ 1967ء میں پاکستان کے تین شہروں سیالکوٹ، لاہو راور سرگودھا کے شہریوں کو پرچم ہلال استقلال کا اعزاز عطا کرنے کا اعلان کیا۔ جنرل محمد موسیٰ خان نے 7مئی 1967ء کو ایک خصوصی تقریب میں سیالکوٹ کو یہ پرچم عطا کیا تھا۔15 مئی 1967ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس پرچم ہلال استقلال کی تصویر سے مزین ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
دنیا میں اس شہر کی شہرت کے لیے صرف علامہ اقبال کا شہر ہونا ہی کافی تھا لیکن اس کے باوجود یہ شہر بڑی عظیم شخصیات کا شہر ہے۔ سیالکوٹ کی ایک انفردایت یہ بھی ہے کہ یہاں دین حق کی دعوت پھیلانے والے اولیاء اکرام نے صرف تبلیغی کام نہیں کیا بلکہ ظلم اور استبداد کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور جہاد کی راہ اپناتے ہوئے شہادت کے مرتبہ پر فائیز ہوئے۔برصغیر کے شائد ہی کسی اور شہر میں اتنی تعدا د میں اولیاء اکرام نے حق کے لیے تلوار اٹھائی ہو اور اس راہ میں اپنا خون دیا ہو جتنا سیالکوٹ کے اولیاء اکرام نے کیا۔ سیالکوٹ قلعہ کی بنیادوں میں حضرت پیر مرادیہ شہید کا خون شامل ہے۔ یہیں اسلام کی پرچم بلند کرتے ہوئے حضرت اما م علی الحق شہید، حضرت پیر شعلہ شہید، حضرت بابل شہید، حضرت سرخ رو شہید اور کئی عظیم ہستیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور یہیں مدفون ہیں۔
سیالکوٹ علامہ عبدالحکیم ؒ کابھی شہر ہے جن کی علم و فضیلت سے متاثر ہوکرمغل بادشاہ شاہجہاں نے دو مرتبہ چاندی میں تلوایا ور وہ آپ کی نذر کی۔حضرت مجدد الف ثانی ؒ انہیں ’’آفتاب پنجاب ‘‘ کہا کرتے تھے۔ آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے شیخ احمد سر ہندی کو سب سے پہلے ’’مجدد الف ثانی ‘‘کے خطاب سے یاد کیا۔ متعدد گراں قدر تصانیف ان کی یاد گار ہیں۔ سیالکوٹ ہی علمی شخصیات میں شمس العلماء میر حسن، مولانا ابراھیم میر، حافظ محمد عالم، مولانا محمد علی کاندھلوی ، علامہ یعقوب خان ، اصغر سودائی اور بہت سی دوسری شخصیات شامل ہیں۔ یہ علامہ اقبال، فیض احمد فیض ، امجد اسلام امجد،رجیندرسنگھ بیدی، کلدیب نیئر، ظہیر عباس، منظور جونئیر، شہناز شیخ، شعیب ملک اور کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ لوگوں کا شہر ہے۔یہ راجو راکٹ اور گونگے پہلوان کا بھی سیالکوٹ ہے۔ بشیر کنور، اسلم کمال ، ایس ایم خالد اور جالی نوس نے فن مصوری اور فنون لطیفہ میں جبکہ میر صاحب اور جاوید اقبال نے کارٹون کی دنیا میں عظیم نام پیدا کیا ہے۔ اسی سیالکوٹ سے تعلق ہونا میرے لیے بھی باعث فخر ہے۔
پانچ سو سال قبل مسیحی شہر کا تاریخی ریکارڈدستیاب ہے ۔ ہندو راجہ سل یا سال بنیاد نے رکھی اس کے بعد راجا سال واہن کا دارالحکومت بنا اور اس نے یہاں ایک کوٹ یعنی قلعہ بنایا اسی بنیاد پر اس کا نام سیالکوٹ ہو گیا۔آٹھویں صدی عیسوی میں یہ کشمیر کا حصہ بنا۔کشمیر کے ساتھ سیالکوٹ کا تعلق صدیوں پرانا ہے اور دونوں ایک اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جس گواہی جموں اور سیالکوٹ کی سرحد پر وہ درخت بھی ہے جو آدھا ایک طرف ہے اور آدھا دوسری طرف ہے۔ پاکستان سے واحد ریلوے لائن بھی سیالکوٹ سے ہی جموں جاتی تھی۔ آج بھی یہاں کشمیری مہاجرین کی بہت بڑی تعدا د آباد جن کے لیے آزادجموں کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تین نشستیں ہیں۔ دنیا بھر میں اس شہر کے بنے ہوئے کھیلوں، آلات جراحی اور چمڑے کی مصنوعات کی دھوم ہے۔ فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں بھی اسی شہر کا بنا ہوا فٹ بال استعمال ہوتا ہے۔
کراچی کے بعد سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا بھی یہی شہر ہے اور اس کی سالانہ برآمدات سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ بھی منفرد مثال ہے کہ اس شہر کے تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیالکوٹ ائیرپورٹ تعمیر کیا جس کا رن وے سب سے بڑا ہے۔ جس کی لمبائی تین عشاریہ چھ کلومیٹر ہے اور اس پر دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ائیربس تین سو اسی بھی لینڈ کرسکتا ہے۔شہر میں سڑکوں اور تعمیر ترقی میں بھی یہاں کے شہریوں نے ذاتی رقم خرچ کرے دوسرے شہروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔
سیالکوٹ نے 1857ء کی جنگ آزادی میں ظلم و جبر برداشت کیا اور 1965ء اور 1971ء میں بھارت نے اس پریلغار کی کوشش کی اور اپنی جارحیت کا نشانہ بنایالیکن اللہ کے فضل سے شہر اقبال آج بھی زندہ و آباد ہے ۔ سیالکوٹ سرحد پر بھارتی افواج کی جانب سے ہونے والی آئے روز کی فائرنگ کے باوجود یہاں کے باشندوں کے حوصلے بلند ہیں اور اُن کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ صرف سیالکوٹ ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کا ہر شہری اپنے وطن کے دفاع کے لیے پُر عزم ہے۔ یہاں میںیہ کہنا چاہوں گا کہ مودی صاحب آپ کسے ڈرا اور خوف ذدہ کررہے ہیں؟ انہیں جو موت سے نہیں ڈرتے بلکہ موت کو اپنے نبی کی سنت سمجھ کر اس کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں جو خوف مرگ سے باکل بے نیاز ہیں اور موت کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہیں۔
آپ کو علم ہونا چاہیے کہ جنگیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ جس قوم میں جذبہ جہاد ہو، شہادت کی تمنا ہو اور آخرت کی زندگی پر ایمان ہو اسے کون شکست دے سکتا ہے۔ پاکستان ایک خطہ زمین کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ اس نے تاقیامت رہنا ہے۔ سیالکوٹ کے جس قلعہ پر بھارت نے بم برسائے تھے اسی پر آج پرچم ہلال استقلال بڑی شان سے لہرایا جاتا ہے اور وہیں آویزاں ہے سیالکوٹ تو زندہ رہے گا۔ صرف سیالکوٹ نہیں پاک وطن کا ہر شہر زندہ و آباد رہے گا اور پاکستان پائندہ رہے گا۔ انشاء اللہ
تحریر: عارف کسانہ