تحریر: زاہد محمود
گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں ڈیڑھ سال کی معصوم بچی خوراک و ادویات کی عدم دستیابی سے زندگی کی بازی ہار گئی۔ بچی کو تدفین کے لئے مقامی قبرستان لے جایاگیا۔ قبرستان انتظامیہ نے بچی کے والدین کا کرایہ دار ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے قبر کی جگہ دینے سے انکار کر دیا انتظامیہ کا کہنا تھا اب تک کوئی ایسی سہولت متعارف نہیں کرائی جاسکی جس سے قبر کے لئے کرایے پر جگہ دی جا سکے۔ بچی کے ورثاء اگلے روز بچی کا جسدِ خاکی لے کر مقامی D.C.O کے آفس پہنچ گئے چار گھنٹے سردی میں بیٹھ کر کسی جانب سے کوئی نوٹس نہ لیے جانے کے بعد مقامی ْصحافی دوست اکھٹے ہو کر باقاعدہ احتجاج کرنے لگے کچھ ہی دیر میں سٹیزن ویلفیئرسوسائٹی کے کارکن پہنچ گئے۔ جنہوں نے بچی کی تدفین کے انتظامات کیے۔
ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ہے جہاں پچھلے دو مہینوںمیں غذا اور ادویات کی عدم دستیابی سے 109 قیمتی جانیں جسم کا ساتھ چھوڑ گئیںجن میں 102 معصوم بچے تھے۔ پاکستان دنیا بھر میں غذائی اجناس پیدا کرنے والا 9 واں بڑا ملک ہے یہاں کی 67 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے52 فیصد دیہاتی آبادی زراعت سے اپنا روزگار حاصل کرٍتی ہے ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے کے بعدغذائی اجناس کا 24 فیصد حصہ بر آمد کیا جاتا ہے۔ ایسے ملک میں فاقے یا غذائی اشیاء کی قلت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پیداوار کم ہے۔قومی ضروریات پوری کرنے کے بعد ایک حصہ برآمد کیا جا تا ہے تو اس کا مطلب ملکی پیداوار ضروریات سے زیادہ ہے پھر بھی بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ اس غیر طبقاتی سلوک کی وجہ افراطِ زر بن رہاہے ۔سو دی نظام کی تباہ کاریوں اورمعاشی استحصال سے سٹیٹس کَو نے جنم لیا جواجتماعی سطح پر ہمارے اوپر بے حسی کا خول چڑھا رہاہے ۔
پاکستان میں غذائی اشیاء کی قیمتیں رواں مالی سال میں 80 سے 120 گُنا بڑھ چکی ہیں بے روزگاری کا گراف خطر ناک سطح تک پہنچ رہا ہے اور محنت کش مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ اتنی قلیل ہے جس سے وہ اپنے خاندان کی خوراک کا بھی مناسب بندو بست کرنے سے قاصر ہیں ایسے میں گھر کے کسی فرد کا بیمار ہو جانا ایک تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے آپ کا جان سے پیارا موت کے بستر پر پڑا ادویات اور علاج دستیاب نہ ہونے کے سبب آپ کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دے اور آپ کچھ بھی نہ کر سکیںاتنے قابلِ رحم حالات سے گزر کر جب سیاسی صورت ِحال اور قومی ترجیحات پر نظر جاتی ہے تو وہی کرپشن کے میگا سکینڈلز ،ناجائز کمیشن،جعلی ٹینڈر وہی جوڑ توڑ ،ایک دوسرے پر الزامات،جھوٹے سیاسی بیانات،بڑھتے ہوئے بیرونی قرضہ جات ایسا لگتا ہے سبھی جمہوری قوتیں مل کر مقابلے میں قومی اداروںکو کھوکھلا کرنے پر تلی ہیں۔بھلے آپ کو سٹیل مل ،پی آئی اے اور دیگر قو می ادارے خسارے میں جانے کے باعث پرائیویٹا ئز کرنے پڑ رہے ہوں
لیکن ان سیاسی سرمایہ داروں کے ذاتی کاروبار تیزی سے ترقی کر تے ہوئے بڑھ رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی اکا نومی تین ڈھانچوں پر استوار ہوتی ہے زراعت ، انڈسٹریل سیکٹراور کامرس تینوں شعبوں میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل زرعی شعبہ ہوتا ہے۔ اس شعبے کی اہمیت زیادہ ہونے کی وجہ لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے غذائی اجناس کی پیداور ممکن بنانا ہوتا ہے جس سے انڈسٹریز کے لئے خام مال پیداہوتا ہے جو 45 فیصد زرمبادلہ فراہم کرکے معاشی بنیادیں مضبوط کرتا ہے ۔ایسے زرخیز ملک میں بھوک وافلاس سے بچے مرنے لگیں اور ان بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اقرباء انواع و اقسام کے کھانے اڑانے لگیں تو اس قوم کی آنے والی نسل کو آنے سے پہلے ہی بھوک و نسل کشی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
اس المیے کا دوسرا رُخ یہ ہے غربت ،جہالت وانتہاپسندی کی باندی دہشت گردی ہمارے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہےA.P.S اور با چا خاں یونیورسٹی میں معصوم بچے سفاکی وبربریت کا نشانہ بنے۔سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی وارننگ میںتعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر اب تک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے سکولوں، کالجوں میں ہمارے بچے محفوظ نہیں رہے اور وزارتِ دفاع و وزارتِ داخلہ سیاسی سوتن کا کردار ادا کررہی ہیں ۔ کا سئہ لیسی میں مشغول ہمارے سیاسی اکابرین و قلمی مبصرجن کے اپنے بچے یورپ کے بڑے تعلیمی اداروں میں مہنگی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ ٹاک شوز میںبیٹھ کر اس بات پر بحث کر رہے ہیں باچا خاں K.P.K میں کیوں دفن نہیں یونیورسٹی ان کے نام پر کیوں ہے؟ ان کی جاہلانہ دانشوری سوال چنا جواب گندم کے مترادف ہے اس وقت دشمن ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمارے بچوں پروَار کر رہا ہے انہیں تحفظ فراہم کرنا بے شک سکیورٹی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن جب پولیس فورس کے سربراہ میڈیا بریفنگ میںکہنے لگیں کہ وہ سبھی تعلیمی اداروں کی حفاظت ممکن نہیں بنا سکتے یقیناََ یہ سن کر دشمن قہقہے لگا کر ہنسا ہو گا کیونکہ تعلیمی اداروں کو غیر محفوظ بنانا ہی دشمن کا اصل ہدف ہے۔
سچائی کی کڑواہٹ ہونٹوں تک آئے تو زبان جلتی ہے تعلیمی اداروں کو غیر محفوظ کرنے کے بعد دشمن کا اگلا ہدف جوہری اثاثوں کو غیر محفوظ کرناہے عالمی منظر نامے میںپاکستان کی سیکیورٹی کو ناقص اورجوہری اثاثہ جات غیر محفوظ ثابت کرنے کے جواز پیدا کرنے کابندوبست کیا جا رہا ہے پٹھان کوٹ سانحے کے بعد انڈین وزیر کی کھلی دھمکی اورباچا خاں حملے میں استعمال ہونے والے ٹی. ٹی .پی کے سپورٹرز کو آئی ایس پی آر کی جانب سے ثبوتوں سمیت پیش کیا جانا اس حملے کو افغانستان سے براہِ راست آپریٹ کیے جانے کے واضع پروف ثابت کرتے ہیں ہمارے بچوں کو مارنے کے لئے انڈیا سے فنڈنگ کی جا رہی ہے سب سے خطرناک بات یہ ہے
کہ انڈیا میں حملہ ہوتا ہے تو وزارتِ عظمی سمیت وزارتِ خارجہ وداخلہ کو پاکستان کی پوزیشن واضع کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ بیان جاری کرنے پڑتے ہیںلیکن چار سدہ حملے میںآئی ایس پی آر کی جانب سے تمام ثبوت پیش کیے جانے کے بعد بھی اب تک سفارتی سطح پر انڈیا کے خلاف کوئی احتجاجی ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا ایک طرف دہشت گرد بچوں کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ہمارے بچے بھوک کے نشانے پر ہیں دونو ں صورتوں میں نشانے کی زد میں ہمارے معصوم بچے ہیں آپ دہشت گردی کے خلاف بڑے آپریشن کریں ضربِ عضب کی کامیابیوں پر جتنی مرضی خوشیاں منائیں۔آپ تمام ملک کے تعلیمی اداروں کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں لیکن بھوک کے ہاتھوں فاقوں سے مرنے والے میری قوم کے بچوں کو محفوظ کرنے کے اقدام کیے بنا کسی کامیابی کا کوئی کریڈٹ کبھی نہیں سمیٹ سکتے۔بچے پھر بھی مرتے رہیں گے۔
تحریر: زاہد محمود