counter easy hit

بیمار معیشت

خراب معیشت سے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں،نتائج معیشت کا پتہ دیتے ہیں اور معیشت دانوں کی خرد کا قصہ بن جایا کرتے ہیں ۔ خراب مشین کو کام کے قابل بنانا کاریگر کی کاریگری کی دلیل ہوتی ہے وگرنہ ٹھیک مشین تو ہر کوئی چلالیتا ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ اسد عمر نے ٹھیک معیشت کو خراب کرلیا ہے اور اب اس کی درستگی ان کے لئے ایک ٹیسٹ بن چکا ہے ، ٹیسٹ میں کامیابی بغیر تیاری کے کیسے ممکن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عوام کو تاثر دے رہی تھی کہ معیشت کو ڈگر پر ڈالنے کے لئے اس کی بھرپور تیاری ہے مگر اب امتحان شروع ہوا تو ہونقوں کی طرح پرچہ ہاتھ میں تھامے حالات کو کوس رہی ہے ۔انتخابات سے قبل عوام جس وقت تحریک انصاف کی قیادت کو سن رہے تھے تب ان کو آسان معیشت میسر تھی، ہر شے کی ترسیل تھی، اس آسانی میں من مرضی کے مرض نے عوام کو اس تن آسانی سے محروم کردیا جو تحریک انصاف کی حکومت سے قبل میسر تھی۔تحریک انصاف کو اقتدار میں لانا ایک امتحان تھا، تحریک انصاف کی معاشی نااہلی کے ساتھ جینا اس سے بڑا امتحان ثابت ہو رہا ہے، اسے کہتے ہیں صبر امتحان!۔۔۔ روپے پیسے کی گردش تھم رہی ہے ، گردش تھم جائے تو کسی بھی شے کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب زندگی کی بھاگ ڈور روپے پیسے کے دم سے عبارت ہو۔ عوام کو بتایا گیا تھا کہ چوروں سے لوٹی ہوئی رقم وصول ہو گی تو وارے نیارے ہو جائیں گے، حالانکہ لٹی ہوئی رقم کی ریکوری کب ممکن ہوتی، اور اگر ہو بھی تو ٹوٹوں میں ہوتی ہے ۔مگر اب جب عوام کی یہ توقع دم توڑرہی ہے تو بتایا جارہا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے لوگوں سے پیسہ اکٹھا کیا جائے گا۔

 

 

بہتر یہ ہوتا کہ حکومت چوروں کو ایمنسٹی سکیم دیتی، کیونکہ عوام تو اس سکیم کا فائدہ تبھی اٹھائے گی اگر وہ سمجھے گی کہ اس کے پاس چوری کا پیسہ ہے ، حالانکہ ٹیکس نہ دینا بھی پیسہ چوری کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔تحریک انصاف کی قیادت کو اعتراض تھا کہ سابقہ حکومت سڑکوں اور پلوں پر پیسہ ضائع کررہی ہے اور اصرار تھا کہ یہ پیسے ہسپتالوں پر لگنے چاہئے تاکہ وہاں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض نہ لیٹیں ۔ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو پیسہ ہی غائب ہو گیا، لوگ کہتے ہیں کہ پہلے بہتر تھے، چاہے وہ سڑکوں پلوں پر لگا رہے تھے، مگر پیسہ نظر تو آتا تھا ، پیسہ تھا تو پرائیویٹ اسپتال میں جا کر ہرکوئی اپنا بیڈ خرید لیتا تھا ، کم ازکم ہسپتالوں تک جانے کی سڑکیں تو صاف ستھری تھیں ، بی آر ٹی کی طرح کی حکومت کی خستہ حالی کی داستان تو نہیں بنی تھیں۔تحریک انصاف کی قیادت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقتدار دیانتدار قیادت کے پاس ہو تو لوگ خودبخود ٹیکس دیتے ہیں اور پھر قیادت کے چیلے چانٹے قیادت کو دیانتدار ثابت کرتے نہ تھکتے تھے ۔ اب جبکہ دیانتدار قیادت اقتدار میں ہے تو اتنا ٹیکس بھی اکٹھا نہیں ہورہا جتنا بے ایمان قیادت کے ہوتے اکٹھا ہو جاتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ ٹیکس کا تعلق دیانتداری سے نہیں، بلکہ معیشت کا پہیہ گھومنے سے ہے ، معیشت کا پہیہ گھومتا ہے تو ٹیکس زیادہ اکٹھا ہو جاتا ہے ، خواہ دینے والے کم ہی کیوں نہ ہوں مگر پہیہ جام ہوجائے تو پہلے جتنا بھی نہیں ہوتا ، چاہے دینے کی خواہش کئی ایک نے پال رکھی ہو۔

کہتے ہیں کہ کسی شخص کو پتہ چلا کہ فلاں دریا کے کنارے پڑے پتھروں میں سے کوئی ایک پتھر پارس ہے ۔ وہ شخص وہاں پہنچا اور انگوٹھی سے ہر پتھر کو رگڑ رگڑ کر دیکھنے لگا، بلکہ وطیرہ یہ اپنایا کہ پتھر کو انگوٹھی سے رگڑتا اور دریا میں پھینک دیتا ۔اس بار بار کی تکرار میں اتنی روانی آگئی کہ اس نے پارس کو بھی انگوٹھی سے رگڑا اور دریا میں پھینک دیا جو دریا میں گرتے ہی سونے میں تبدیل ہوگیا ، مگر اس شخص کی دسترس سے باہر جا چکا تھا۔ہم نے ایک ٹھیک معیشت کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے ، تحریک انصاف کی قیادت نے اتنی تکرار کے ساتھ اس کی خامیاں بیان کیں کہ عوام نے اس ٹھیک معیشت کو اپنے ہاتھوں سے دریا برد کردیا اور اب باقی کے پتھروں کو انگوٹھی سے رگڑ رگڑ پارس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ہم نے معیشت کو مصیبت بنالیا ، اب لوگ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ ہم نے کسے اپنے سر پر سوار کرلیا ہے، مگر ان کا دکھ یہ ہے کہ یہ جانے والوں کو بھی پکار نہیں سکتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے تو انہیں دریا برد کرکے آئے ہیں۔ اب ہم آئی ایم ایف کی جانب دیکھ رہے ہیں اور آئی ایم ایف ہماری صلاحیتوں پر شاکی ہے ، اسد عمر سے اگر پاکستانی عوام متاثر نہیں ہوسکے تو آئی ایم ایف والے کیونکر ہوں گے،مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ان سے تو وزیراعظم عمران خان نے بھی مل کر دیکھ لیا ہے۔