کیمسٹری یا علم کیمیاء ہماری زندگی میں ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے ایک بیٹے کا نام ’’باؤ جی‘‘ تھا۔ ان کے بچپن میں انگریز نے جب گولڑہ شریف میں ٹرین چلائی تو باؤ جی روزانہ ٹرین دیکھنے چلے جاتے تھے۔
ایک دن مریدین نے باؤ جی سے روزانہ آنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ٹرین سے محبت ہوگئی ہے۔ مریدین مزید متجسس ہوگئے، محبت کی وجہ پوچھی تو باؤ جی نے انتہائی دانشمندانہ جواب دیا جو نو برس کے عام بچے کی فہم و فراست سے بہت بڑا تھا۔ باؤ جی نے کہا کہ میری ٹرین سے محبت کی پانچ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ٹرین کا انجن ، ٹرین کو اس کی منزل تک لے کر جاتا ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ آخری ڈبے کو بھی ساتھ لے کر جاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ آگ خود کھاتا ہے، ڈبوں کو نہیں کھانی پڑتی۔ چوتھی وجہ یہ کہ صراط مستقیم پر چلتا ہے جبکہ پانچویں وجہ یہ کہ انجن، ڈبوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ ڈبے اس کے محتاج ہوتے ہیں۔باؤ جی نے اپنے اس جواب میں لیڈر کی بنیادی خوبیاں بیان کردیں جن مزید تشریح کے لیے میں کیمسٹری کا سہارا لینا چاہتا ہوں۔
کیمسٹری یا علم کیمیاء ہماری زندگی میں ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ہماری بنیادی ضروریات کااس سے گہرا تعلق ہے۔ عمارت کے میٹریل سے لے کر اشیائے خورو نوش تک اور کھانا کھانے سے لے کراس کے انہضام تک سب کیمسٹری کا مستحق ہے۔ کیمسٹری کی تاریخ بتاتی ہے کہ یونانیوں کے مطابق دنیا میں چار عناصر پائے جاتے ہیں جن میں مٹی ، پانی، ہوا اور آگ شامل ہیں۔ ایک مدت تک یہ تھیوری درست قرار دی گئی مگر بعدازاں مزید تحقیق کے بعد یونانیوں کی یہ تھیوری غلط ثابت ہوئی، نئے عنصر دریافت ہوئے، بعض مصنوعی عنصر بنائے گئے جس کے بعد آج دنیا میں 109عنصرانسانی علم میں آچکے ہیں۔
یونانیوں کی اس تھیوری کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو میرے نزدیک یہ تھیوری لائف سائنسز کے حوالے سے بالکل درست ہے۔ دنیا کی کسی بھی کامیاب شخصیت کا مطالعہ کریں یا اپنے ارد گرد موجود کامیاب افراد پر نظر دوڑائیں تو ان کے اندر آپ کو یونانیوں کے بتائے ہوئے یہ چار عناصر ملیں گے۔ آج ہر نوجوان کامیاب ہونا چاہتا ہے، لیڈر بننا چاہتا ہے، بزنس کرنا چاہتا ہے، سماجی کارکن بننا چاہتا اور چاہتا ہے کہ وہ جس بھی فیلڈ میں جائے کامیابی اس کے قدم چومے۔
بقول اقبالؒ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کامیابی کے بھی کچھ ضابطے ہیں جن پر پورا اترنا لازمی ہے لہٰذ اگر کوئی شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے اندر یونانیوں کے بتائے ہوئے چار عناصر کو موجود ہونا ضروری ہے۔
پہلا عنصر مٹی ہے: مٹی کی یہ خوبی ہے کہ دنیا کی تمام تر خرابیوں کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے غرض کہ وہ مردہ جسم جسے لوگ اپنے پاس نہیں رکھتے، زمین اسے بھی اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ انسانی فضلہ، کچرا و دیگر قسم کا گند زمین کے نیچے موجود ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا مگر ہم اس گندگی کے اوپر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بنا کر ان میںٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہم مٹی کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں اور اس پر اکڑ کر چلتے ہیں مگر جب ہمارے مردہ جسم کو لوگ اپنے پاس رکھنا گوارا نہیں کرتے تو یہ مٹی ہمیں اپنی آغوش میں پناہ دیتی ہے۔ ہم اس مٹی پر بے پناہ ظلم ڈھاتے ہیں، اس پر تھوکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہمارا خیال کرتی ہے اور ہماری تمام تر ضروریات پورا کرتی ہے جن میں اناج، کپڑا، معدنیات و دیگر چیزیں شامل ہیں۔ میرے نزدیک ایک کامیاب شخص کے اندر مٹی خوبی ہونا لازمی ہے کہ وہ لوگوں کی دی گئی تکالیف، ان کی تنقید اور برائیوں کو اپنے اندر دفن کردے ، اپنا مشن جاری رکھے اور پروڈکٹیو کام کرے۔
دوسرا عنصرپانی ہے: لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ فلاں شخص ٹھیک نہیں ہے، ان کی اپنے باس سے نہیں بنتی، وہ کلاس یا دفتر میں ایڈجسٹ نہیں ہو پارہے وغیرہ۔ میرے نزدیک یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہے کہ اس میں ماحول کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پانی کو جس بھی برتن میں ڈالیں وہ اس کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے توڑا نہیں جاسکتا لہٰذا انسان کی شخصیت میں پانی کی اس خصوصیت کا ہونا لازمی ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لے اور مسائل و مصائب کی وجہ سے ٹوٹے نہیں بلکہ اپنا کام جاری رکھے۔
تیسرا عنصر ہواہے : ہوا تمام جانداروں اور بعض بے جان چیزوں کی ضرورت بھی پوری کرتی ہے جس میں گاڑی کے ٹائر، پریشر بریک و دیگر چیزیں شامل ہیں۔ ہوا کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نظر نہیں آتی مگر سب کی ضروریات پوری کرتی ہے اور اس کا موجود ہونا سب کے لیے باعث سکون ہوتا ہے لیکن اگر ہوا نہ ہو تو سانس بند ہونے لگتا ہے۔ایک کامیاب انسان کے اندر ہوا کی خوبی ہونا بے حد ضروری ہے کہ وہ جس جگہ بھی موجود ہو وہاں کے لوگوں کی ضرورت بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ خاموشی سے دوسروں کی مدد بھی کرتا رہے جس طرح بہت سارے سماجی کارکن و ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے لوگ کرتے ہیں۔ ہوا کی طرح اگر یہ ہمدرد لوگ معاشرے میں موجود نہ ہوں تو گھٹن کا احساس ہوتا ہے اور معاشرہ تباہی کی طرف چل نکلتا ہے۔
چوتھا عنصر آگ ہے: آگ کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل واضح ہے ۔ آگ کا کام ہے کہ جو بھی چیزاس کے راستے میں آئے اسے جلا کر راکھ کردے۔ کامیابی کے خواہاں شکص میںآگ کی یہ خوبی ہونا لازم ہے کہ آپ اپنے مقصد میں بالکل واضح ہوں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ آگ کے حوالے سے مزید تشریح کی گنجائش موجود ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ ہم سب کے علم میں ہے۔ آپؑ کو جلانے کے لیے نمرود نے آگ لگائی اور وہ آگ اتنی شدید تھی کہ اس میں کوئی بھی چیز پھینکی جاتی تو وہ جل کر راکھ ہوجاتی۔ ایک آگ وہ تھی جو نمرود نے لگائی اور ایک آگ وہ تھی جو حضرت ابراہیم ؑ کے اندر تھی یعنی عشق باری تعالیٰ کی آگ۔ آپؑ اپنے مقصد میں بالکل واضح تھے لہٰذا ذرہ بھر بھی ڈگمگائے نہیں اور نمرود کی لگائی ہوئی آگ میں چھلانگ لگا دی۔
بقول اقبال ؒ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشہ ِ لب بام ابھی
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ کے اندر کچھ کر دکھانے کی آگ موجود ہے، آپ اپنی لگن میں مگن ہیں تو پھر دنیا کی کوئی بھی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، آپ کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوں گے۔