رپورٹ (اصغر علی مبارک سے ) سیکولر ملک بھارت میں سکھوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو پاکستان میں حاصل ھو چکے ھیں پاکستان ’سکھ میرج ایکٹ‘ منظور کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ھے حالانکہ بھارت کے علاوہ سکھوں کی ایک بڑی کمیونٹی کینیڈا میں رھتی ھے لیکن پاکستان سکھوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی کرنے والا دنیا کا پہلااور واحد ملک بن گیا ھے ۔پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری کے لیے بڑی خوش خبری ہے کہ اب سکھوں کی شادیاں بھی رجسٹر ہوا کریں گی۔پنجاب اسمبلی نے چند روز قبل سکھ میرج ایکٹ 2018 متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا جس کے بعد پاکستان سکھ میرج ایکٹ منظور کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ۔پنجاب اسمبلی میں سکھوں کی شادیوں کےحوالے سے “پنجاب سکھ آنند کارج ایکٹ” کو متفقہ طورپر منظور کیا گیا ۔دلچسپ حقیقت یہ ھے کہ پنجاب حکومت کے 5 پارلیمانی سالوں میں منظور ہونے والا یہ پہلا پرائیویٹ ممبر بل ہے۔جو رکنِ پنجاب اسمبلی سردار رمیش سنگھ اروڑا نے پیش کیا وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے یہ بل منظور کر کے پوری دنیا میں موجود سکھوں کے دل جیت لیے ہیں۔سکھ میرج ایکٹ 2018 کے تحت 18 سال سے کم عمر سکھ لڑکے یا لڑکی کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہو گی۔سکھ باپ کی نسل میں شادی نہیں کر سکیں گے، شادی کے لیے 4 پھیرے ضروری ہوں گے اور شادی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں یونین کونسلوں کے بعد نادرا میں بھی رجسٹرڈ ہو گی۔ بل کی منظوری کے لئے جلد ہی رجسٹرار مقرر ہو گا۔ شادی کی رجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ جاری ہو گا اور شادی کے لئے گروگرنتھ(مذہبی) کتاب ضروری ہو گا پاکستان کی پنجاب اسمبلی میں سکھوں کے لئے سکھ میرج ایکٹ (آنندکارج) منظور کئے جانے کا شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان بھائی سنگھ لونگوال نے خیر مقدم کیا ہے۔بھائی لونگوال نے کہاکہ سکھ ایک الگ قوم ہے اور اس قوم کے رسوم و رواج اور تہذیب و روایات دیگر مذاہب سے مختلف ہیں۔سکھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بھارت میں بھی سکھوں کے لیے کوئی میرج ایکٹ موجود نہیں ہے، وہاں سکھوں کی شادیاں ہندو میرج ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔واضح رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سکھ آبادی بھارت میں آباد ہے جہاں مجموعی طور پر 2 کروڑ 80 لاکھ کے قریب سکھ آباد ہیں جبکہ پاکستان میں پچیس ہزار کے قریب سکھ آباد ہیں۔بل کے تحت سکھوں کو شادیوں کی قانونی حیثیت مل گئی جو پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری کیلئے خوشخبری ہے ۔
واضح رہے کہ پاکستان جہا ں کم و بیش 25 لاکھ سکھ بستے ہیں ان کو شادیوں کے لئے قانونی حیثیت ملی ہے جبکہ بھارت جہا ں ڈیڑھ کروڑ سکھ بستے ہیں سمیت دنیا بھر میں سکھوں کو شادی بیاہ کیلئے قانون موجود نہیں ہے اور ان کی رجسٹریشن ہندو ایکٹ کے تحت ہی ہوتی ہےاب دنیا بھر سے سکھ پاکستان آ کر اپنی شادیاں رجسٹرڈ کروا سکیں گے سکھ برادری کئی صدیوں سے پاکستانی علاقوں میں آباد ھیں مہا راجہ رنجیت سنگھ کو پنجا ب میں سکھ سلطنت کا با نی تسلیم کیا جاتا ھے جس کی زندگی کا بیشتر حصہ رام نگر / رسول نگر میں گزرہ اور مہا راجہ رنجیت سنگھ اپنے تمام تر فیصلے رسول نگر میں ہی کرتا تھا ۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کا انگریز سرکار سے تاریخی معائدہ بھی اسی مقام پر طے پایا جسکے تحت پنجا ب ”میں اس کا اقتدار 1799تا 1849تک رہا ۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے 1822میں در یائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2کلو میٹر مشر ق کی جانب اپنے دور کی خو بصور ت تر ین با ر ہ در ی بھی تعمیر کروائی بانی گرونانک جی اس فلسفے کا پرچار کرتے رہے۔ بانی گرونانک جی نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کا اختتام رنجیت سنگھ کی حکومت کی شکل میں ہوا۔گرونانک جی نے 1539ء میں انتقال کیا۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں میں یکساں مقبول گرونانک جی، ان کے ہاتھوں جنم لی ہوئی تحریک کی شکل تین سو برسوں میں یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی رام نگر /رسول نگر اس سڑک پر ہے جسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا جو جموں سے جھنگ تک جاتی ہے۔ایک مقام پر یہ سڑک دریائے چناب سے ملتی ہے اور اسی جگہ کورام نگر/ رسول نگر کے نام سے جانا جاتا ہے۔رام نگر/ رسول نگر کی تاریخ بہت ہی جنگو جدل میں رہی کبھی یہ مسلمانوں کی حکومت میں رہی تو کبھی اس پر سکھ قابض رہے تو کبھی انگریزوں نے اس پر اپنی حکومت کی۔ خوبصورت قدرتی مناظر سے بھر پور اس جگہ کو برصیغر پاک و ھند میں کلیدی مقام حاصل ھے، رسول نگر میرا آبائی علاقہ ھے جہاں میرے آباؤ اجداد صدیوں سے آباد ھیں ھما را آبائی گھر رسول نگر کے تاریخی محلہ پٹھانوالہ میں الحمداللہ شاد و آ باد ھے مجھے فخر ھےرام نگر /رسول نگر سے میرے آباؤ اجداد اور نامی گرامی شخصیات کا تعلق رھاھے جہنوں نے قیام پا کستان سے لیکر استحکام پاکستان تک کی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا شہررسول نگرکو تاریخی عزاداری شہداے کربلا کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں جانا جاتا ھے آغاز یکم محرم کے شب کا جلوس اور دسویں محرم کے تعزیہ کے جلوس کی لائسینس داری اعزاز بھی ڈاکٹر مبارک علی فیملی کے پاس صدیوں سے ھے جسکو سکھوں کے دور آغازبھی صدیوں پہلے ھوا برصیغر پاک و ھند کے نامور مصور و شا عر نذرعلی نظر ،شہید مظہر علی مبارک ،امام بخش ،جدی بخش حکیم نیاز علی ،ڈاکٹر مبارک علی و دیگر کا تعلق مبارک فمیلی رسول نگر سے ھے بادشاہی مسجد کیلیے رسولنگر سے تبرکات گے ھیں ،ان تبرکات میں رسالت مآبؐ کا عمامہ ، ٹوپی ، جبّہ ، قدم پاک کا نقش ، اسلامی پرچم ، حضرت علی ( ع ) کا سپارہ جو خط کوفی میں ہے ۔ حضرت بی بی فاطمہ( ع ) کا رومال ، جائے نماز حضرت امام حسین( ع ) کا عمامہ ، حضرت غوث الاعظمؒ کا عمامہ اور جائے نماز کے علاوہ متعدد دیگر متبرک اشیاشامل ہیں ان تبرکات کی تاریخ سید محمد لطیف نے ’’تاریخ لاہور‘‘ میں لکھی ہے ۔ جس کے مطابق جب 1401ء کو امیر تیمور نے دمشق فتح کیا تو وہاں سادات نے دیگر تحائف کے ساتھ چند نایاب اور متبرک اشیا بھی دیں جنہیں پا کر امیر بہت خوش ہوا ۔ 1402ء کو والی روم سلطان بایزید نے بھی اپنی شکست کے بعد کچھ تبرکات امیر کی نذر کیے ۔ امیر تیمور ان تبرکات کو ثمر قند لے گیا۔ امیر تیمور کی وفات کے بعد یہ تبرکات اس کے وارثوں کے قبضے میں رہے ۔ فتح ہند کے بعد شہنشاہ ظہیر الدین بابرتبرکات ہندوستان لے آیا پھر جب محمد شاہ کی ملکہ پر خستہ حالی کا دور آیا تو اس ملکہ نے یہ تبرکات پیر محمد اور شاہ محمد رضا کے ہاتھ 80 ہزار میں فروخت کر دیئے ۔
چنانچہ ان دونوں نے تبرکات آپس میں تقسیم کر لیے۔ تبرکات پیر محمد انیس رام نگر /رسول نگر اپنے علاقے میں لے گیا ۔ رسول نگر پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ سردار مہا سنگھ کے حملے سے یہ تبرکات بھی اس کے ہاتھ لگے ۔ 1769ء کو جب شاہ زمان کے حملے کی افواہ گرم ہوئی تو رنجیت سنگھ نے دوسرے قیمتی متاع و مال کے ساتھ یہ تبرکات اپنی رانی مہتاب کور کے حوالے کر دیئے جو اس نے اپنی ماں سداکور کو دے دیئے ۔ یہاں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ۔ ایک دن اچانک قلعے میں آگ لگ گئی سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا لیکن تبرکات محفوظ رہے اس کے بعد سے تبرکات کا احترام سکھوں میں بھی کیا جانے لگا ۔ مائی کی وفات کے بعد ان اشیا کا مالک شیر سنگھ بنا ۔ اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد خالصہ سرکار کے قبضے میں آئی ۔ سردار ہیرا سنگھ نے انہیں اپنی حویلی میں رکھا ۔ جب وہ قتل ہو گیا تو تبرکات قلعہ لاہور میں آگئے ۔رنجیت سنگھ کی تاریخی بھنگی توپ بھی یہیں سے بادشاہی مسجد لاہور لے جائی گئی۔رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب پر حکومت کی مگر اس کا محبوب علاقہ رام نگر /رسول نگر تھا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کی تاریخ 1839 ھے1848 میں ؔ لارڑ گونے وزیرآباد سے دریاچناب کو پار کیا اور یہ غیر فیصلہ کن جنگ جیت لی اور ان کا رام نگر پر مکمل قبضہ 28 دسمبر کو ہوامؤرخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ رنجیت سنگھ جٹ (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا جبکہ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہرنجیت سنگھ سانسی (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا۔ رنجیت سنگھ کے آباؤ اجداد سکھوں کی بارہویں مثل ’’سکرچکیوں‘‘ میں سے تھے۔ اس مثل کی بنیاد سردار جڑت سنگھ نے رکھی تھی جوکہ سکرچک میں رہتا تھا۔ اس کے باپ کا نودھا قوم جاٹ اور گوت سانسی تھی۔ اس قبیلے کے افراد زیادہ گوجرانوالہ (رسولنگر ) کے رہنے والے تھے۔ اس مثل کا پہلا معروف نام بدھ سنگھ ڈاکو کا ہے۔ تقسیم سے قبل تک بدھ سنگھ اوراس کی گھوڑی ’’دیساں‘‘ کی کہانیاں دیہاتوں میں عام تھیں۔ وہ اپنی گھوڑی پر جہلم، راوی اور چناب کو پچاس میل تک تیر کر پار کرلیتا تھا۔بدھ سنگھ پہلا شخص تھا جوکہ گروگوبند جی کے ہاتھوں خالصہ ہوا تھا۔ بدھ سنگھ کی موت بھی افسانوی تھی۔ جس کے ساتھ ہزارہا کہانیاں منسوب ہیں۔ بدھ سنگھ کے بعد نودھ سنگھ نے ایک جتھا بنالیا اور افغان پٹھانوں سے لڑائی کے بعد راوی اور جہلم کے درمیان حصے میں کچھ علاقے اپنے قبضے میں کرلیے۔بدھ سنگھ کے نام کے ساتھ سکر چکیہ مشہور ہوگیا۔ اس کے عہد میں سکر چکیہ ایک طاقتور مثل بن گئی۔اس تمام عرصے میں افغان پٹھانوں کے ساتھ لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں میں 1752ء کو نودھ سنگھ مارا گیا۔ اس کے چار بیٹوں میں سب سے بڑا چارہت سنگھ تھا جس نے اپنی سرکار کو سکرچک سے اٹھا کر گوجرانوالہ منتقل کردیا۔ اس کی بھی تمام زندگی پٹھانوں اور دیگر سکھ مثلوں کے ساتھ لڑای میں گزرگئی۔ اکثر لڑائیوں میں اس نے شکست کھائی اور پھر ایک لڑائی میں اپنی ہی توڑے دار بندوق پھٹنے سے مارا گیا۔اس کے بعد اس کے جتھے کی باگ دوڑ اس کے بیٹے مہاسنگھ کے ہاتھ آئی۔ جس کی شادی جند کے سردار، سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے ہوئی۔ جس کا اصل نام راج کور تھا اور وہ سکھوں میں مائی ملوائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مہاسنگھ کے گھر ہی رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ مہاسنگھ کی زندگی اور رنجیت سنگھ کے ابتدائی ایام کے حوالے سے اقتباس خوشونت سنگھ کی کتاب ’’رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔22) سے درج ذیل ہے۔’’چارہت سنگھ کا بیالیس سالہ بیٹا مہاسنگھ اپنے باپ ہی کی طرح نہایت دلیر جنگجو تھا۔ مہاسنگھ نے جند کے سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد مثل داروں میں مہاسنگھ کی حیثیت بہت مضبوط ہوگئی تھی۔ گوجرانوالہ کی فصیل کے اندر مہاسنگھ نے ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام مہاسنگھ نے اپنے نام پر گڑھی مہاسنگھ رکھا۔ مہاسنگھ نے اپنی فوج میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے بعد شہسواروں کی تعداد 6000 ہوگئی اور مہاسنگھ نے اپنے آباؤ اجداد کے مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ تسلط قائم کیا۔مہاسنگھ نے رسول نگر کو ایک مسلمان قبیلے چٹھہ سے چھین لیا۔ مہاسنگھ علی پور، پنڈی بھٹیاں، ساہیوال، عیسیٰ خیل اور سیالکوٹ پر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد مہاسنگھ اپنے باپ کی طرح جموں کی طرف بڑھا۔ جموں کا ہندو ڈوگرا حکمران اس دولت مند شہر کو بے رحم سکرچاکیوں کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ مہاسنگھ نے جموں کو فتح کرکے سکرچاکیہ مثل کو نسبتاً گمنامی سے نکال کر نمایاں ترین مقام پر پہنچا دیا۔ کہنیا جوکہ بھنگیوں کی جگہ سب سے طاقتور مثل بن گئے تھے، جموں پر قبضہ کرنے کے لیے مہاسنگھ سے نبردآزما ہوگئے۔ دونوں مثلوں میں متعدد مرتبہ لڑائیاں ہوئیں۔ ایک لڑائی میں کہنیاؤں کے سردار کا اکلوتا بیٹا گربخش سنگھ ہلاک ہوگیا۔ اب کہنیا سردار کا فخر مٹ چکا تھا۔ اس نے اطاعت قبول کی اور اپنی سب سے بڑی بیٹی مہتاب کور کی شادی مہاسنگھ کے بیٹے رنجیت سنگھ سے کردی۔ کہنیا سردار تھوڑے عرصے بعد فوت ہوگیا۔ اس کے مقبوضہ علاقوں کی باگ ڈور اس کی بیوہ سداکور کے ہاتھ آگئی۔‘‘۔12 اپریل 1801ء میں تمام پنجاب پر سکھ سرکار بن گئی اور پنجاب پر سکھ حکومت رنجیت سنگھ کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس وقت پنجاب کی حدود ستلج سے جہلم تک کے وسیع علاقے تک پھیل چکی تھیں۔ ان ہی برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب کے علاوہ ہندوستان کے کم و بیش تمام علاقوں پر بلاواسطہ اور بالواسطہ سرکار قائم کرچکی تھی۔ کمپنی کی حکومت کو سکھوں کی بڑھتی طاقت اور دوسری جانب افغان حملہ آوروں کے حملوں کی بھی مکمل سمجھ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں حکومتیں وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتی رہیں۔1839ء میں رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو 1844ء سے 1849ء تک کے عرصہ میں انگریز پورے پنجاب پر مکمل قبضہ حاصل کرچکے تھے۔ رنجیت سنگھ کی تمام عمر میدان جنگ میں گزری اسکے صرف دو بیٹے حقیقی تسلیم کیے گئے۔ جن کے نام کھڑک سنگھ اور دلیب سنگھ تھے۔ باقی چھ بیٹوں کے نام ایشر سنگھ، پشودا سنگھ، تارا سنگھ، شیر سنگھ، ملتانہ سنگھ اور کشمیرا سنگھ تھے۔‘‘خوشنونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’مہاراجہ رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔255) پر رنجیت سنگھ کی آخری رسومات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔’’اگلے دن مہاراجہ کی لاش کو گنگا جل سے نہلایا گیا۔ اسے بحری جہاز کی شکل کی صندل کی لکڑی کی چتا پر لٹا دیا گیا۔ اس جہاز کے بادبان ریشم اور مخمل کے بنائے گئے تھے۔ وزیروں اور درباریوں نے چتا پر شالیں ڈال کر اپنی عقیدت کا آخری مرتبہ اظہار کیا۔ ستی ہونے والی چار رانیوں اور سات ملازماؤں سمیت جنازہ قلعے سے روانہ ہوا۔ انہوں نے شادی کا لباس اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی کوئی چوڑی، کڑا یا کوئی زیور توڑ کر فقیروں کے ہجوم میں اچھال دیتی تھیں یا مقدس گیت گانے والے برہمنوں میں سے کسی کو دے دیتی تھیں۔ جنازہ شہر کی تنگ گلیوں میں سے گزرا، جو روتے ہوئے لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔‘‘رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی عظیم الشان سمادھ کی عمارت کی بنیاد اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے رکھی۔ سمادھ کی تعمیر کیلئے سنگ مر مر اور دوسرا قیمتی پتھر ہندوستان کی مختلف جگہوں سے منگوایا گیا۔ کھڑک سنگھ کی ایک برس کے اندر موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد سمادھ کی تعمیر مہاراجہ شیرسنگھ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اس دوران سکھ سرداروں کی انگریزوں کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ جس کے باعث تعمیر کا سلسلہ مسلسل نہ رہا۔ اس عمارت کی تعمیر انگریز سرکار کے عہد میں ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی سمادھ میں اس کے ساتھ ہونے والی ستی رانیاں اور کنیزوں کی سمادھوں کے نشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ رسول نگر میں ہندؤں کے متعدد مندر بھی ہیں جو ھندو مت کے بجاۓ جین مت کے پیروکاروں کے ھیں اس لئے انکو جین مندر کہتے ہیں اکثر لوگ جین مت اور ہندو مت کو ایک ہی سمجھتے ہیں مگر یہ دونوں مذہب الگ الگ ہیں۔قدیم بھارت کی دھرتی نے تین مذاہب کو جنم دیا۔جو دنیا کے قدیم مذاہب مانے جاتے ہیں جن میں سب سے پرانا ہندو مت ہے جس کی بنیاد رکھنے والے بھگوان وشنو پاکستان کے علاقے کٹاس میں پیدا ہوئے۔دوسرا مذہب جین مت ہے جو 600 سے 500 سال قبلِ مسیح وجود میں آیا اور تیسرا بد مت ہے جس کی بنیاد مہاتما بدھ نے رکھی۔جین لفظ’ جن‘ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے جیتنا یعنی جنہوں نے اپنے من کو جیت لیا ہو وہ جین کہلاتے ہیں اس مذہب میں بھگوانوں کو تیر دھنکر کہا جاتا ہے ۔اس مذہب کے کل 24 تیر دھنکر ہیں جس طرح سیکھوں میں 11 گورو ہیں اور ہندومت میں بھگوان وشنو کے24اوتار ہیں سب سے پہلے تیر دھنکر جنہوں نے اس مذہب کی بنیاد رکھی ان کو’ ریسب دیو‘ یا آدی دیو یعنی سب سے پورانے دیو کہتے ہیں۔دوسرے دتیر دھنکر اجیت نات تھے اور تیسرے سمبھو تھے۔ہر تیر دھنکر نے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا نے کے لیے کوئی جانور یہ کسی چیز کو اپنایا ہوا تھا جن کو وہ چن کہتے تھے ریسب دیو کا چن بیل تھا اجیت نات کا ہاتھی اور سمبھو کا چن گھوڑا تھا۔ایک کے بعد ایک تیر دھنکر آتا گیا اور اپنے طریقے اور علم کی بنیاد پر اس مذہب کی بنیادیں رکھتا گیا ہندوکتابوں کے مطابق جو جین مذہب کے 21 ویں تیر دھنکر تھے وہ بھگوان کرشن کے چچلے بھائی اور ان کے 8 ویں اوتار بھی تھے اسی وجہ سے کچھ لوگ دونوں مذاہب کو ایک مانتے ہیں۔مگر یہ دونوں مختلف مذہب ہیں!ان کے 23 تیر دھنکر کا نام پارسونات ہے اور یہ ان کے مذہب میں بہت اہمیت کے حامل ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جین مذہب کے ماننے والوں کے لیے 4 اصول دیے جن میں 1 ھینسا ہے یعنی لڑائی جھگڑا نہ کرنا کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچانا یہ مذہب کے ماننے والے اس بات کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ یہ منہ پر ایک کپڑا لگا کر رکھتے ہیں کہ کوئی مچھر وغیرہ بھی منہ میں نہ چلا جائے دوسرا سچ بولنا تیسرا چوری نہ کرنا اور 4 تھا یہ ہے کہ جتنا میسر ہے صرف اُسی پر گزر کیا جائے کوئی بھی اضافی چیز کی چاہ دل میں نہ رکھی جائے۔جین مت کے آخری تیر دھنکر کا نام مہاویر سوامی ہے اور ان ہی کی بدولت یہ مذہب اتنا پھیلا جو ان سے پہلے نہ پھیل سکا انہوں نے 4 اصولوں میں ایک اور کا اضافہ کیا جس کے مطابق عورت ذات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔جس کو عام الفاظ میں بھرم چاری کہا جاتا ہے۔یہ اصول اس لیے بنایا گیا کہ آدمی عورت کی چاہ میں اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے۔سوامی مہاویرا کا چن شنک تھا جسے ان کی ہر محفل کی ابتدا میں بجایا جاتا ہے۔سوامی مہاویرا کے بعد اس مذہب کے ماننے والوں نے اپنی آسانی کے لیے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک ابھی بھی ان اصولوں کا مانتے ہیں اور ان میں مزید اضافہ کر لیا ہے..