تحریر: لقمان اسد
کامیابی سے جو چیزیں ہمکنار کرتے ہیں بہت سارے عوامل سے الگ دو چیزیں کسی بھی بڑے سے بڑے مارکہ کو سر کرنے کیلئے جتنی کارگر ثابت ہوتی ہیں انکا نعم البدل دوسرا کچھ نہیں خاموشی اور عملی جدوجہد ہر بڑی کامیابی اور ہرکٹھن منزل تک پہنچنے کا سیدھا اور واحد راستہ ہیں مگر بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہماری لیڈر شپ کو ہر وقت اپنی سیاست کو بچانے کی فکر لاحق ہوتی ہے جبکہ دوسری کمزوری ہمیشہ سے ہماری قیادتوں کی یہ رہی ہے کہ وہ بے عملی کی طرف راغب اور شارٹ کٹ کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں حالت ادھر حکومتی کیمپ یہ ہے کہ پہلے خواجہ سعد رفیق نااہل قرار دیئے گئے اور اب قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق۔
مطلب اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام حکومت سے پہلے اگر بے زار نہ بھی تھے تو اب ضرور ہیں جبکہ عام تجزیہ کے مطابق ن لیگ کے ووٹرز اور سپورٹرز کے لئے بھی اب اپنی سیاسی جماعت کا دفع دھاندلی کے حوالے سے کرنا مشکل نظر آتا ہے اس میں آخر حرج بھی کیا تھی۔ جن وزراء یا جن اہم عہدیداروں پر انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد تھے اور ان کے اس حوالے سے کیسز بھی الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت تھے ان کے کیسز کا فیصلہ آنے تک انہیں ان وزارتوں اور اہم حکومتی ذمہ داریوں سے الگ کرلیا جاتا تاکہ آنے والے دنوں میں اگر فیصلہ حکومتی ٹیم میں شامل ذمہ داران کے خلاف آجاتا تو بھی حکومت کیلئے شرمندگی اور سبکی کا اس انداز میں باعث نہ بنتا۔
اگر فیصلہ ان کے حق میں آجاتا تو بھی حکومت کی بلے بلے ہوجاتی اور میاں محمد نواز شریف کو جمہوریت پسند اور انصاف پسند قائد کے القابات نوازے جاتے مگر اتنا بڑا دل گردا کہاں سے لائیں اس ملک کے 19کروڑ عوام کہ جو لاکر اپنی قیادت کو ہدیتاً، تحفتاً پیش کریں دنیا میں کتنے جمہوری ممالک ہیں جن میں وسط مدتی انتخابات بھی کرالئے جاتے ہیں یقیناً بہت سارے ممالک کی مثال اس ضمن میں ہمارے سامنے آتی ہے مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کے بعد ہمیشہ مارشلاء کا انتظار ہی کیاجاتا ہے سب سے بڑا جو واویلا ہماری جمہور پسند اور جمہور نواز لیڈر شپ کرتی ہے وہ بس یہی ہوتا ہے کہ انہیں کھل کر کام کرنے نہیں دیا جاتا ملک کے عوام یہ بات سمجھنے سے آج تک قاصر ہیں کہ کونسا ”کام” انہیں کرنے دیا جاتا ؟۔
اصغر خان کیس کی صورتحال سب کے سامنے ہے کیس کا فیصلہ تو برس ہا برس سے نہیں ہوسکا مگر اصغر خان کے موقف کی تائید کئی سیاسی اور جمہوری زعمائوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر نندی پور پراجیکٹ جیسے گھپلے والے کام ہوتے رہیں تو ٹھیک ہیں اگر اس کے علاوہ ایمانداری کے ساتھ عملی اقدامات ملکی مفادات کی خاطر اٹھانا پڑیں تو ایسے کام ہمارے جمہوری رہنمائوں کو چونکہ کام ہی نہیں لگتے تو وہ یہ شور مچاتے ہیں کہ انہیں کام (یعنی کرپشن نہیں کرنے دی جارہی ہے ) نہیں کرنے دیا جاتا۔
اخلاقی تقاضوں، انسانی رویوں اور انصاف پسندی کا عالم ہماری سیاست کے باب میں یہ رہا ہے کہ ماضی میں جھانکتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کبھی منتخب وزیر اعظم کو دفعہ 109 کے تحت تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی شخص کو اس دفعہ کے تحت دی جانے والی پھانسی کی سزا کے متعلق واحد مثال ہے ذوالفقار علی بھٹو مجرم اگر تھے بھی تو جن حالات میں انہیں ناکافی ثبوتوں اور مزید یہ کہ بھٹو صاحب کے کیس میں تین میں سے دو ججز کے اختلافی نوٹ تحریر کردیئے جانے کے باوجود انہیں تختہ دار کی زینت بنایا گیاتو کیادنیا بھرکیلئے یہ عمل ہمارے عدالتی نظام اور ہمارے لئے بے عزتی اور جگ ہنسائی کا موجب نہ تھا؟۔
برس ہابرس سے ہماری قیادتیں بلوچستان کے نام پر ہنگامہ کھڑی کرتی چلی آئی ہیں لیکن جب جمہوریت کی باری آئی تو محترم آصف علی زرداری نے بلوچستان کو ترقی یافتہ اور امن فاختہ بنانے کیلئے سردار اسلم رئیسانی کو بلوچستان پر مسلط کردیا جب ہمارے رہنمائوں کے رویے اس انداز کے ہوں تو ایسے حالات میں غیر ملکی ایجنسیز کیا ہمیں معاف رکھیں گی کراچی میں ایم کیو ایم اگر وہاں کے حالات کی ذمہ دار ہے اور خیبر پختوانخواہ میں تحریک طالبان پاکستان مگر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ جب تک ہم گھر کے بھیدی پر زندگی تنگ کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو ملک کا امن بحال نہیں کیا جاسکتا اس کیلئے اگر خاموشی اختیار کرنے اور عملی کردار ادا کرنے کی بیحد ضرورت ہے مشکل مگر ان دو چیزوں کو اپنانے میں محض یہ ہے کہ عملاً ہم سے ہوتا کچھ نہیں اور محض دعوے کرنا ہمارا مقصود ہے تو خاموشی کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟۔
تحریر: لقمان اسد