کراچی: حکمراں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ حل کرنے کے بعد ’’احتساب کے قوانین‘‘ پر قانون سازی جلد ازجلد پارلیمنٹ سے منظور کرانے کیلیے ’’خاموش تعاون‘‘ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔
’’احتساب کے قوانین‘‘ پر قانون سازی کے معاملے پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر پارلیمانیجماعتوں نے مشاورت مکمل ہونے اور مربوط مسودہ تشکیل دینے کی شرط پر حکمراں لیگ کے ساتھ تعاون پر تقریباً آمادگی کااظہار کردیا ہے، حکمراں لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمانی جماعتوں سے مربوط رابطوں کے سبب تحریک انصاف کیجانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میں تبدیلی کا معاملہ تقریباً التوا کا شکار ہوگیا ہے تاہم پی ٹی آئی کی قیادت اپوزیشن جماعتوں کے عدم تعاون اور عددی اکثریت نہ ہونے کے سبب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کی تبدیلی کیلیے تحریک عدم اعتماد کی قرار داد تاحال پیش نہیں کر سکی ہے۔
پی ٹی آئی اس بات پر غور کر رہی ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا معاملہ فی الحال موخر کر کے حکمراں لیگ کی وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی، اس احتجاجی تحریک کے تحت حکمراں لیگ کے خلاف ملک گیر عوامی جلسوں کے ذریعے آئندہ انتخابات کیلیے عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی جو بعد ازاں انتخابی مہم میں تبدیل کردی جائے گی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی پس پردہ مفاہمتی کوششوں کے سبب حکمراں لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری سیاسی تناؤ میں بتدریج کمی ہو رہی ہے، اس مفاہمتی کوششوں کے سبب حکمراں مسلم لیگ کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان چیئرمین نیب کی تقرری پر طویل مشاورت ہوئی، دونوں جماعتوں نے چیئرمین نیب کے عہدے پر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقرری پر اتفاق کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی اچھی شہرت کے سبب وفاقی حکومت نے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے پر اپنے ناموں کو واپس لیا اور پی پی کی جانب سے تجویز کردہ نام پر اتفاق کیا۔