تحریر: شاز ملک
دروازہ کُھلا اور میں ساکت اور پھٹی پھٹی نظروں سے اُن لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو ابھی ابھی چارپائی پر لیٹے ایک ساکت وجود کومیرے سامنے لا کر صحن میں رکھ کر ہمدردانہ نظروں سے مُجھے دیکھتے ہوئے باہر نِکل گئے۔
کِسی کی آواز نے مُجھے چونکا دِیا ارے کوئ اس غم زدہ کے سر پر دوپٹہ اوڑہاؤ, مُجھے نہیں پتہ میری کونسی بہو یا بیٹی نے مجھے اپنے بازوؤں میں لے کر سنبھالا , میرے وجود کو چادر سے ڈھانپا, اور مجھے لے جا کر اُس جسدِ خاکی کے پاس بِٹھا دیا ہر طرف سے آوازیں آ رہی تھی۔
کوئی اِسے رلاؤ کہیں شِدتِ غم سے اسکا دل نہ پھٹ جائے, میں ساکت بیٹھی اُس چہرے کو دیکھ رہی تھی ـ جو چند گھنٹے پہلے وہ الفاظ بول کر دندناتا ہوا گیا تھا جسے سن کر میں دم بخود ہو گئ تھی وہ جو میرے وجودِ ناتواں کی دھجیاں اُڑا کر گیا تھا,میری برسوں کی رفاقت کو اک لمحے میں پامال کر گیا۔
اب وہ خاموش تھا اور میرے اندر کی عورت بول رہی تھی چُپ کے اُلجھے بھنور کو کھول رھی تھی مُجھ سے پوچھ رھی تھی کے وہ میری وفاؤں کی موت پر ماتم کرے یا اِس شخص کے مرنے پر جو کُچھ لمحے پہلے مُجھے اپنی زندگی سے حرفِ غلط کی طرح مِٹا کر گیا تھا۔
لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے کوئی اسے رُلاؤ نہیں تو اسکا دل پھٹ جائیگا میں سب چہروں کو خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچ رھی تھی کہ لوگو تُم کیا جانو کہ یہ دل تو پہلے سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا ہے جب اس ساکت وجود میں بستی زندگی نے پل بھر میں مُجھ میں دھڑکتی زندگی کو ساکت کر کےبے جان کر دیا تھا, اور اپنے تئیں مُجھے عُم عمر بھرکے لئیے میری روح کو پامال کر کے درد کے جلتے انگاروں میں چھوڑ گیا تھا۔
یہ ثابت کرنے کے لئے کے اُسے رب نے بصورتِ مرد ایک کمزور عورت کا مجازی خُدا بنایا ہے, میری زباں خاموش ہے مگر دل اور روح سِسکتے ہوئے میرے درد پر ماتم کناں ہیں , میں آسمان پر آنکھیں لگائے اپنے رب سے دل میں یوں مخاطب ہوں کہ اے مرے ربِ حقیقی جب تو نے میری عزت بھرم رکھ لیا ہے تو میں کون ہوتی ہوں تیرے رازوں سے پردہ اُٹھانے والی اور پھر اُٹھنے کی کوشش میں چکرا کر زمین پر سجدے میں جا گِری۔
عورتیں مُجھے اُٹھانے پکڑنے کے لئے آگے بڑھیں اور میں سجدے میں گری اُس سے یہی پُوچھے جا رہی تھی اے میرے اللہ ہاں بس مجھ پہ اتنا کھولدے کے اب کہ کونسی عِدت گوارا کروں بیوہ ہونے کی یا طلاق یافتہ ھونے کی..
تحریر: شاز ملک