تحریر : کامران غنی
یعقوب میمن کی پھانسی نے ہندوستانی مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ میمن کی پھانسی کے بعد ملک کے اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے درمیان کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یعقوب میمن کو پھانسی کیوں دی گئی؟ سوال صرف اتنا ہے کہ اس کی رحم کی درخواست کو کیوں مسترد کر دیا گیا؟ ہندوستانی میڈیانے اس معاملہ کو ایسا رنگ دے دیا کہ میمن کی سزا معاف کرنے کی آواز بلند کرنے والے لوگ بھی مجرم نظر آنے لگے۔ حکومت کی شہہ پر ہندوستانی میڈیا نے میمن کی پھانسی کو ہندو مسلم ایشو بنانے کی نہ صرف مذموم کوشش کی بلکہ اس کوشش میں اسے صد فی صد کامیابی بھی ملی۔ ہندوستانی مسلمانوں نے یعقوب میمن کو کبھی بے قصور قرار نہیں کہا۔
میمن 22 سالوں سے قید و بند کی صعوبتیں برادشت کرتے رہے، مسلمانوں نے کبھی ان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔مسلمانوں اور ملک کے باشعور طبقے کا بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ یعقوب میمن کی رحم کی درخواست منظور کر لی جائے اور پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا کیوں کہ یعقوب میمن کی پھانسی کے ذریعہ دراصل ملک کی اقلیتی آبادی کو یہ پیغام دینا تھا کہ ”جان لو جمہوریت کے دو مضبوط ستون حکومت اور مقننہ پر تو ہم پہلے ہی قابض ہو چکے تھے ، اب جمہوریت کے تیسرے مضبوط ستون ‘عدلیہ’ پر بھی ہماری اجارہ داری ہے۔ اب یہاں سے بھی وہی فیصلے ہوں گے جو ہم چاہیں گے۔ اگر تم نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو باغی کہلائو گے اور بعید نہیں کہ تمہارا بھی وہی انجام ہو جو یعقوب میمن کا ہوا۔”
یعقوب میمن کی پھانسی کے بعد ہندوستان کے جمہوریت پسند لوگوں کا اعتبار عدلیہ سے بھی اٹھ گیا۔ ایک ایسے شخص کو جو براہ راست بم دھماکوں میں ملوث بھی نہیں تھا، جس نے خود ہی اپنے آپ کو تفتیشی ایجنسیوں کے سپرد کر دیا، صرف اس امید پر کہ اسے معاف کر دیا جائے گا، معافی نہ دی گئی۔ہائے افسوس! کہ دنیا کے سب سے بڑے اور مضبوط جمہوری ملک سے عدل و انصاف کی روح نکال لی گئی۔ رحم و کرم کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ رحم کی درخواست کرنے والوں کو بھی قہر ناک نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ صرف اس لیے کہ یعقوب مسلمان تھا۔
حالیہ چند برسوں میں یوں تو کئی لوگوں کو پھانسی دی گئی لیکن ان میں افضل گرو، اجمل قصاب اور یعقوب میمن کی پھانسی نے ساری دنیا کی توجہ ہندوستان کی طرف مبذول کرا دی۔ آج جو لوگ یعقوب میمن کی پھانسی کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں کیا وہ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ کیا افضل گرو اور اجمل قصاب کی پھانسی پر بھی یہاں کے مسلمانوں نے احتجاج کیا؟ کیا اُن کے لیے بھی اتنے بڑے پیمانے پر رحم کی درخواست پیش کی گئی؟عدلیہ کا فیصلہ کوئی خدائی حکم یا حرف آخر نہیں ہے۔ ہندوستانی عوام خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں لیکن بسا اوقات عدالتیں بھی انصاف نہیں کر پاتیں ہیں ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ نچلی عدالتوں سے عدالت عظمیٰ تک جانے کے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں؟یعقوب میمن کو تختۂ دار پر چڑھا کر دراصل ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی انتہائی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ میمن نہ تو مسلمانوں کا قائد تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر لیکن پھانسی کے بعد اسے ایک مخصوص طبقے کا ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔
ملک میں بڑھتی بدعنوانیوں اور جرائم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے یعقوب میمن سے اچھا کوئی دوسرا ہتھیار فی الحال حکومت کے سامنے نہیں تھا۔ یعقوب میمن کو تختۂ دار پر چڑھا کر حکومت نے ایک طرف جہاں اپنے سیاسی آقا آر ایس ایس کو ایک بہترین تحفہ پیش کیا اور فرقہ پرست طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی وہیں ویاپم گھوٹالہ اور کالا دھن جیسے سلگتے موضوعات کو بھی چشم زدن میں سرد خانوں میں ڈال دیا۔ یعقوب میمن کی پھانسی کے بعد ملک میں ہونے والے مختلف دہشت گردانہ واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور انھیں بھی تختۂ دار پر چڑھائے جانے کے مطالبات ہونے لگے ہیں لیکن ماضی قریب و بعید کے بے شمار واقعات اور عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف کی سبھی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوں گی۔ ناگپور میں میمن کو نہیں انصاف کو سولی پر چڑھا یا گیا ہے۔
میمن کی رحم کی درخواست کو مسترد کر کے یہ بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ اس ملک میں بٹلہ ہائوس ، عشرت جہاں انکائونٹر، مالیگائوں ، مکہ مسجد، سمجھوتا اکسپریس اور اجمیر دھماکہ ، شہادت بابری مسجد جیسے واقعات کے لیے الگ الگ پیمانے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یقینا یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔ مسلمانوں کے پا س نہ تو مضبوط ملی قیادت ہے اور نہ ہی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی۔ ایسے میں دینی و ملی اداروں اور مسلم دانشوران اور سیاسی لیڈران کو مل بیٹھ کر ہندوستان کے بدلتے سیاسی منظرنامے کا جائزہ لینا چاہیے اور ہندوستان میں کمزور ہوتی جمہوریت اور روز افزوں بڑھتی فرقہ پرستی کی روک تھام کے لیے مضبوط و مستحکم لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے ورنہ بعید نہیں تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرانے لگے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس کر خاکستر ہو جائے۔
تحریر : کامران غنی