لاہور: میں اب نئے پاکستان کا ایک قابل فخر شہری ہوں ۔ میرے سیاسی مخالفین مجھے ’’انصافیا ‘‘کہتے ہیں جبکہ مہذب انداز میں تنقید کرنیوالے دانشور ہم جیسوں پر ’’طفلانِ انقلاب ‘‘کی پھبتی کستے ہیں ۔بھد اڑانے اور ہماری بے مثال جدوجہد پر قہقہے لگانے والے اس سے پہلے بھی ’’برگر بچے ‘‘ کہہ کر
نامور تجزیہ کار محمد بلال غوری اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ہمارا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پورا گائوں بھی مر جائے تو میراثی کا پُتر چوہدری نہیں بن سکتا لیکن ہم نے انتخابات میں فقید المثال کامیابی حاصل کرکے نام نہاد تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کے منہ بند کر دیئے ہیں ۔لیکن یہ جغادری پھر بھی باز نہیں آ رہے اور تنقید مسلسل سے مجھے جیسے انصافیوں کو بدظن کرنے کی اپنی سی کوشش کئے چلے جا رہے ہیں شاید انہیں معلوم نہیں کہ انصافیا ہونے کا مطلب کیا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے جیالے دیکھے ہیں ،نونی متوالے دیکھے ہیں اور اسی بنیاد پر کسی غلط فہمی کا شکا رہیں کہ تحریک انصاف کے جنونی کارکن کو ورغلانے یا بہکانے میں کامیاب ہو جائینگے ۔اسلئے میں نے بہتر سمجھا کہ ان نادانوں کو اپنی خصلتوں ،عادات و اطوار اور مزاج سے آگاہ کروں تاکہ یہ اپنا وقت اور توانائیاں ضائع نہ کریں ۔انصاف یا اِزم کا پہلا اصول یہ ہے کہ ایک بار جو کمٹمنٹ کر دی تو پھر سیاسی مخالفین کیا خود اپنے آپ کی بھی نہیں سننی ۔یہی وجہ ہے کہ قیادت اور نظریئے کیساتھ میری وابستگی اٹوٹ اورکسی شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔کوئی میرے رہنمائوں کے بارے میں کچھ بھی کہتا رہے
اور کسی طرح کے بھی ثبوت اور حقائق لے آئے ،میں اپنی رائے پر نظر ثانی نہیں کرتا ۔ایک بار جو کہہ دیا ،سو کہہ دیا ،جسے لیڈر مان لیا ،سومان لیا۔عمران خان پر کیچڑ اچھالنا تو گویا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے۔آپ فواد چوہدری کی مثال لے لیں جوہمارے وزیراطلاعات و نشریات ہیں ،ان کے بارے میں لوگ کیا کچھ نہیں کہتے ،ان کی پرانی ٹویٹس نکال کر دکھاتے ہیں مگر مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کپتان کا انتخاب کبھی غلط نہیں ہو سکتا ۔ابھی چند روز قبل فواد چوہدری نے یہ بتا کر دل خوش کر دیا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے روزانہ 51ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے ۔کسی صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ آپ قومی خزانہ بچانے کے اقدامات تو کر رہے ہیں مگر اس خزانے کو بھرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں ؟جس پر انہوں نے بتایا کہ اگر ہم ایک دن میں 51ارب روپے بچا رہے ہیں تو یہ بھی قومی خزانہ بھرا ہی گیا ہے۔آپ اندازہ کریں کہ کپتان کو حلف اٹھائے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے اور اس حساب سے 357ارب روپے کی بچت ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے
کہ کفایت شعاری کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ماہانہ 1530ارب روپے جبکہ سالانہ 18615ارب روپے کی بچت ہو گی ،یہ ملک و قوم کی کتنی بڑی خدمت ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سالانہ بجٹ میں سے قرضوں کی واپسی اور ان پر سود کی ادائیگی کی رقم منہا کر دی جائے تو سال بھر کے اخراجات کا تخمینہ 4178 ارب روپے ہے ۔ان اخراجات میں سے 1100ارب روپے براہ راست دفاعی بجٹ کیلئے مختص ہوتے ہیں جبکہ سالانہ ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 2043ارب روپے ہے اب اگر نئے پاکستان کی حکومت اپنے انقلابی اقدامات سے سالانہ 18615ارب روپے بچا رہی ہے تو 4178ارب روپے کے اخراجات کرنے کے بعد باقیماندہ رقم جو تقریباً 14437ارب روپے بنتی ہے ،اس سے غیر ملکی قرضے اتارے جا سکتے ہیں یا پھر ہر سال بھاشا ڈیم جیسا کوئی منصوبہ مکمل کیا جا سکتا ہے ۔انصافیا اِزم کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر اصول اپنے مخصوص تناظر اور پیرائے میں موثر ہو تا ہے اور ان اصولوں کو خلط ملط کرنے سے بات بگڑ سکتی ہے ۔مثال کے طور پر ہم ہر بات کا آغاز بابرکت الفاظ سے کرتے ہیں یا ریاست مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیاسی مخالفین ہماری ذاتی زندگیوں کے بارے میں کھوج لگانا شروع کر دیں
اور یہ سوال پوچھنے لگیں کہ تم نے فلاں نماز پڑھی یا نہیں پڑھی ۔نماز ،روزہ ،شادی ،طلاق اور اولاد جیسے نجی معاملات کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ سب معاملات پروردگار اور بندے کے مابین ہیں جن پر کسی کو خدائی فوجدار نہیں بنایاجا سکتا ۔اکثر اوقات حاسدین اور مخالفین کی طبیعت صاف کرنے کیلئے ہمیں علامہ خادم رضوی کے لب و لہجے میں بات کرنا پڑتی ہے تو ہمارے مخاطب طعنہ زنی کرتے ہیں کہ دیکھو بابرکت الفاظ سے بات شروع کرنے والوں کے منہ سے کیسے پھول جھڑ رہے ہیں۔کیا آپ لوگوں نے صبح کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کیا ؟ڈرائیور تلاوت سے سفر کا آغاز کرتا ہے ،اس کے بعد نعت یا قوالی والی کیسٹ لگائی جاتی ہے اور پھرچل سو چل ۔کیسٹ کا دور تو گزر گیا ،اب نئے پاکستان میں سی ڈی ہوا کرتی ہے اورہم بھی موقع کی مناسبت سے سی ڈی لگاتے ہیں تو شکایت کیسی؟انصافیا اِزم کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں بات کی جائے اور میں ببانگ دہل اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ میری نظر میں ہر وہ شخص پٹواری ہے جس نے بلے پر مہر نہیں لگائی
یا پھر جو جمہوریت کی آڑ میں شریف خاندان کی تائید و حمایت کرتا ہے ۔ہر وہ صحافی خواہ رپورٹر ہو ،کالم نگار یا پھر اینکر ،ہماری نظر میں لفافہ صحافی ہے جو حقائق بیان کرکے پاکستان کے سادہ لوح عوام کو نئے پاکستان سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔سلیم صافی کو بھی ہم اسلئے سلیم لفافی کہتے ہیں کہ اس نے نئے پاکستان کے بیانئے کو نقصان پہنچایا ۔عین ممکن ہے اسکی بات درست ہو مگر اس نے نئے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں خاموش رہنے کے بجائے یہ حقائق بیان کرکے چوروں کے بارے میں تاثر تبدیل کرنے کی کوشش کی اور یہ ناقابل معافی گناہ ہے۔نئے پاکستان کی مخالفت میں ادھار کھائے بیٹھے لوگ پوچھتے ہیں کہ سوئس بینکوں سے واپس لائے گئے 200ارب ڈالر کہاں ہیں ؟پیٹرول56روپے لیٹر کیوں نہیں ہو رہا ؟وزیراعظم سیکریٹریٹ کی گاڑیاں نیلام کیوں نہیں کی گئیں ؟اگلے چند روز میں جب یہ سب ہو جائے گا تو پھر تنقید کیلئے کوئی نیا موضوع ڈھونڈ لیں گے ۔ ہماری حکومت نے صوابدیدی فنڈز ختم کئے تو دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والوں نے کہا کہ وہ تو نوازشریف نے ہی ختم کر دیئے تھے ۔بندہ پوچھے اگر دہشت گردوں کی کمر بار بار توڑی جا سکتی ہے تو صدابدیدی فنڈز دوسری بار ختم کیوں نہیں کئے جا سکتے؟جو لوگ پوچھتے ہیں کہ اب تک حکومت نے کیا کیا ؟انہیں معلوم نہیں کہ اب تک 20کے قریب ٹاسک فورسز بنائی جا چکی ہیں ۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا ہے بس اس کیلئے کامن سینس کے بجائے انصافیا سینس اور کامن لاجک کے بجائے انصافیا لاجک درکار ہے جس سے یہ سب پٹواری اور لفافہ صحافی محروم ہیں