تحریر: محمد عبداللہ ۔ملتان
اخلاص یعنی کہ خلوص کے معنیٰ صاف ہونے اور ملاوٹ کے زائل ہو جانے کے ہیں۔ اہل علم کے ہاں اخلاص کی کئی ایک اصطلاحی تعریفات و توضیحات ہیں۔ ایک تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اطلاعت میں تنہا مقصود جاننا اخلاص ہے۔ ایک تعریف یوں کی گئی ہے کہ اخلاص یہ ہے کہ بندے کے اعمال ظاہر وباطن ہرصورت ہر لحاظ سے برابر اور ایک ہوں۔ اعلیٰ درجے کے اخلاص یہ ہے کہ انسان کا باطن اس کے ظاہر سے زیادہ پائیدار ہو۔ حقیقتاً تو اعمال کو ہر طرح کی آمیزش سے پاک صاف رکھنا اخلاص ہے۔ اخلاص اعمال کو صرف باری تعالیٰ کی طرف پھیرنے اور اعمال سے قربت الٰہی کے حصول کا نام ہے۔ اعمال کی قبولیت کے لئے دو شرائط نا گزیر ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ذات اوراس کی رضا کے لیے کیا گیا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت نبوی ۖ کے عین مطابق ہو ان شرائط میں سے کسی ایک شرط کی عدم موجودگی اس عمل کی قبولیت میں مانع ہو گی۔
اخلاص عبادات و اعمال حسنہ کی اصل روح ہے۔ اخلاص کے بغیر عبادات و اعمال بے روح یعنی بے جان ہیں۔ عبادات واعمال کا مقصد محض رضاء الٰہی کا حصول اخلاص کہلاتا ہے۔ اخلاص للٰہیت کا نام ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج ہم اپنے معاشرے پر اگر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اخلاص نام کی چیز کا تصور اور وجود ناپید ہو چکا ہے۔ جو کہ کلی طورپر عنقاہوگیا ہے یا اسی عدم وجودکی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ اخلاص کی جگہ متضاد ”ریاکاری”، دکھاوا ، نمود ونمائش و دیگر دنیاوی ذاتی مفادات و مقاصد نے لے لی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورة الجن میں انسان کی تخلیق کا مقصد عباد ت الٰہی کو قرار دیا ہے۔ اور سورة الملک کی آیت نمبر2 میں ”کہ موت و حیات کو اس لیے بنایا ہے کہ تمہیں آزمایاجائے کہ تم میں سے اچھے اعمال کون کرتا ہے۔ اس آیت میں اچھے اعمال کے لئے ”احسن ” کہا گیا ہے کہ سب سے اچھے اعمال یعنی بہتر نہیں بلکہ بہترین اعمال ۔ پھر اعمال و عبادات کے لیے طریقہ کار اسوہ حسنہ کو قرار دیا۔ اور قبولیت کے لئے شرط ”اخلاص ”کو ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔ ترجمہ: اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کا خالص کرتے ہوئے ۔ سورت البینہ کی اس آیت نمبر5میں عبادت میں للٰہیت ، اخلاص کو بطور دستور و ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورة الزمر کی آیت نمبر2اور آیت نمبر3 میں بھی اس کی توضیح کی گئی ہے کہ عبادت اخلاص کے ساتھ کی جائے اور عبادت میں اخلاص، دین خالص اللہ ہی کا حق ہے۔
اخلاص مومن کے عمل کی روح کاسب سے ا ہم خاصہ ہے اخلاص کے بغیر ساری کاوشیں ، اعمال ، بکھرے ہوئے زرات کی مانند ہیں۔ اخلاص دل کے اہم ترین اعمال میں سے ہے۔ قرآن مجید کے بعد امت مسلمہ کے لئے معتبر ورہنماء عظیم کتاب صحیح البخاری کی حدیث جو کہ معروف ہے اور صحیح بخاری شریف کا ایک باب بھی اسی نیت و اخلاص کے حوالے سے قائم کیا گیا ہے کہ اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے۔ اس سے اخلاص کی اہمیت رو ز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اعمال اور خلوص نیت یعنی کہ اخلاص کس قدر ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ نیت کی حیثیت روح کی اور اعمال کی حیثیت اعضائِ جسمانی کی مانند ہے۔ جب جسم کا رشتہ روح سے ٹوٹتا ہے تو اسے مردہ اور بے جان قرار دیاجاتا ہے۔چنانچہ دل کے احکام کی معرفت اعضاو جوار ح کے احکام کی معرفت سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا مومن مسلمان کے لئے لازم ہے کہ اس کے اعمال خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں۔ ریاکاری ، نمود و نمائش اور لوگوں سے مدح و ستائش کی خواہش مطلوب نہ ہو۔ بلکہ رضاء الٰہی ہی مقصود ہو ۔ جو کہ ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے رضاء الٰہی کا حصول یقینی ہو جائے۔ عبادات اور اخلاص لاز و ملزوم ہیں۔جیسی نیت ہو گی ویسی ہی مراد اور اس کا ماحصل ہوگا۔ نیت کے خلوص سے عبادت کا وہ اہم عنصر ملتا ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے ۔ اور عبادات کا مقصد تقویٰ ہی بتایا گیا ہے۔ تقویٰ سے ہی رضا ء الٰہی کا حصول یقینی ہے۔ تقویٰ کے حصول کے لئے نیت اور اعمال میں اخلاص کا ہونا ناگزیر ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة ، صدقات ، سنن ، نوافل ، فلاحی رفاہی امور ، مفاد عامہ ان سب کے لئے قرآن کی آیات مقدسہ میں اللہ تعالیٰ اور احادیث نبویہ میں نبی رحمت ۖ نے اخلاص اور مسنون طریقہ کو شرط لازم قرار دیا ہے کہ اگر ان میں اخلاص ہے تو یہ سود مند ہونگے بصورت دیگر یہ ضرر رساں ثابت ہونگے۔ قبولیت اور عدم قبولیتِ اعمال کے لئے بھی اخلاص کا پیمانہ متعین کیا گیا ہے۔
نیت عمل کی وہ اساس ہے جس پر عمل کی عمارت تعبیر و تعمیرہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ نیک نیتی اور اخلاص کے سبب اللہ تعالیٰ معمولی عمل کو اوراس کے اجر کو کئی گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اخلاص کے فضائل و ثمرات میں سے ہیں۔ اخلاص اعمال کی قبولیت کا عظیم سبب ہے۔ اخلاص کے نتیجے میں بندہ کو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ اور لوگوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت تکریم لکھ دی جاتی ہے۔ مخلص کا ہر عمل جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو لکھاجاتا ہے خواہ و ہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو۔ مخلص اگر سو جائے یا بھول جائے تو معمول کے مطابق وہ جو عمل کرتاتھا اس کے لئے لکھ دیاجاتا ہے۔ مخلص بندہ بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو محض اس کے اخلاص کے سبب اس کے لئے وہی عمل لکھ دیاجاتا ہے جو وہ حالت اقامت و صحت میں کیاکرتا تھا۔
اخلاص ہدایت میں اضافے کا باعث ، صراط مستقیم پر گامزن رہنے کا ذریعہ ہے ، اخلاص آخرت میں عذاب سے نجات اور بلندی درجات کا بہترین ذریعہ ہے ۔ لوگوں میں نیک نامی، دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات اخلاص کے ثمرات ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دل کا اطمینان ،نیک بختی اخلاص کا ہی ثمر ہے۔ دل میں ایمان کی تزئین و آرائش ، مخلص لوگوں کی صحبت و ہم نشینی ، دعائوں کی قبولیت ، گھروں میں برکت ، قبر میں شادمانی، جنت میں داخلہ جہنم سے نجات یہ سب اخلاص کے ثمرات ہیں (بحوالہ کتاب الاخلاص از حسین العوایشہ)۔ مختصر یہ کہ اخلاص دنیاوی آخرت کی کامیابی ، رضاء الٰہی کے حصول کے لئے اہم سنگ میل ہے۔
اخلاص کی توضیح کے حوالے سے سورة اخلاص میں ا تمام بیان کر دیا گیا ہے کہ اخلاص کی تکمیل۔ کی حد کیا ہے۔ اس لیے سورة اخلاص کا نام سورة اخلاص ہے کہ خالص توحید کے بیان کی حد قیامت تک کے لئے روز روشن کی طرح عیاں کر دی گئی ہے جس طرح توحید خالص ہی فائدہ مند اور ثمر آور ہے بعینہ زندگی کے تمام معاملات ، امور ، عبادات میں اخلاص کا مادہ ہی ثمر آور ہے۔ اخلاص ہے تو عمل کی حیثیت اور فائدہ ہے بصورت دیگر کچھ نہیں۔
ٍٍ بلا شبہ اخلاص نصرت و رحمت الٰہی ، رضا ء الٰہی ، زمین و آسمان والوں کی محبت و سرفرازی کا یقینی سبب ہے۔ درحقیقت یہ ایک نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ودیعت کر دیتا ہے مگر اس میں بندے کی رغبت بھی کار فرما ہو تی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کی دولت اوراس کے نور سے منور فرمائے کیونکہ آج ہم اس نعمت سے خود محروم کیے ہوئے مگر یہ ہمارے لیے نا گزیر ہے۔
تحریر: محمد عبداللہ ۔ملتان ۔
صدر پاکستان رائٹرز ونگ
qmuhammadabdullah@mail.com۔0307-5922192