تحریر : فیصل اظفر علوی
اگرچہ پانامہ لیکس کے ہنگامے کے بعد اس وقت ملک میں سیاسی بھونچال اپنے عروج پر ہے لیکن ایسے حالات میں مملکت کے دیگر مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس وقت بھی وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں جبکہ ملک بھر میں ہمارے بنیادی مسائل بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، گزشتہ دنوں مجھے سندھ کے دورے کے دوران سندھ میں عوامی مسائل کا نزدیک سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جس میں تعلیمی زبوں حالی سرفہرست رہی، اس وقت سندھ کے تعلیمی معیار کا موازنہ اگر دوسرے صوبوں سے کیا جائے تو حالات انتہائی گھمبیر نظر آئیں گے۔
سندھ میں بچوں کے سکولوں میں داخلے اور پڑھنے پڑھانے کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم نمبر پر ہے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ کی صوبے کے انتظامی امور میں عدم دلچسپی مسائل کو مزید بڑھوتری کی جانب لیکر جا رہی ہے، ناقص تعلیمی حکمت عملی کے سبب سندھی عوام کے عالمی تعلیمی معیار سے مقابلہ تو در کنارسندھی عوام پنجاب کے تعلیمی معیار سے بھی بہت پیچھے نظر آ رہی ہے۔
حکمرانوں کے بلند و بانگ دعووں کے برعکس محکمہ تعلیم میں بڑھتی ہوئی کرپشن، غیر مستحکم تعلیمی پالیسیاں اور وسائل مہیا نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ دن دور نہیں جوپورے سندھ کو نہ ختم ہونے والے جہالت کے اندھیروں میںدھکیل دے گا، اندرون سندھ کے حالات ایسے ہیں کہ جیسے جدید ترقی یافتہ دنیا سے شاید ہی اس خطے کا کبھی رابطہ رہا ہو،تعلیمی مسائل کے ساتھ صحت کے دن بدن بڑھتے ہوئے اژدھے نے عوام کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔
تعلیمی زبوں حالی سے نمٹنے کیلئے سندھ کے شہری و دیہی علاقوں میں تعلیم ، صحت و دیگر شعبوں میں کام کرنے والی سماجی تنظیموں کا اہم کردار بھی دیکھنے میں آیا جو بارش کے پہلے قطرے کا کام سر انجام دے رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کام جو حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کرنے چاہئیں ان سے روگردانی کس لئے کی جا رہی ہے اور کیا یہ فریضہ صرف سماجی تنظیموں کا ہی ہے کہ وہ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کراتی رہیں اور ان مسائل پر کام کرتی رہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ نونہالان وطن سے ان کے بنیادی حقوق سلب کرکے ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کے باقاعدہ منصوبے پر کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے اوراس میں کوئی بیرونی ہاتھ نہیں بلکہ سب اندرونی ہاتھ ہی ملوث ہیںاور اُلٹا عالمی سماجی تنظیمیں تعلیم جیسے فریضے کو طلبہ و طالبات تک بہم پہنچانے میں اہم کردار کر رہی ہیں جو ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
یہاں میں سندھ کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کیلئے USAID کے سندھ ریڈنگ پروگرام کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی ، یوں تو امریکی پالیسیوں سے مجھے لاکھ اختلافات ہیں لیکن جو کام مثبت انداز میں کیا جا رہا ہے اسے سراہا جانا چاہئے ، USAID پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں سندھ کے مختلف شہروں سکھر، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، خیرپور، دادو، جامشورو، جیکب آباد اور کراچی، یعنی، لیاری، اورنگی، گڈاپ، کیماڑی اور بن قاسم کے پانچ شہروں سمیت سات اضلاع میں کام کیا جا رہا ہے۔
سندھ ریڈنگ پروگرام (SRP) میں ابتدائی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی مہارت کو بہتر بنانا، غریب و نادارطالبعلموں کی معیاری تعلیم تک آسان رسائی، وسائل کی فراہمی اور سکولوں سے باہر موجود بچوں کی ابتدائی خواندگی کی شرح کو بہتر بنانا جیسے مقاصد شامل ہیں اور ان کیلئے یو ایس ایڈ کی جانب سے جامع پلان مرتب کیا گیا ہے جو عملی طور پر کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے، حکومت سندھ اپنے تعلیمی بحران پر قابو پانے کیلئے اس پلان سے مدد لے سکتی ہے ‘سندھ ریڈنگ پروگرام کے سلسلے کی ہی ایک کڑی صوبہ بھر میں جدید لائبریریوں کے جال کی صورت میں دیکھنے میں آئی۔
خاص طور پرکراچی کے لیاری جیسے پر آشوب علاقے میں جہاں امن و امان کی صورتحال سال کے 12 مہینوں میں خراب رہتی ہے وہاں ایک لائبریری کے وزٹ میں چند بچوں سے گفتگو کے بعد خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے کہا کہ یہاں گولیاں چلتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہم پڑھ لکھ کر یہ سب ٹھیک کر دیں گے’ مقامی کمیونٹی کا مطالبہ تھا کہ حکومت سندھ اس طرز کی تعلیمی اصلاحات کی طرف توجہ دے تا کہ تعلیمی معیار بلند ہوسکے اور میرے خیال میںعوام کا یہ مطالبہ ایک سو فیصد جائز ہے کہ انہیں ایک ایسا تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے جس میں ان کے بچے بغیر نسلی امتیاز کے اعلیٰ تعلیم حاص کر سکیں۔
صد افسوس کہ پی پی حکومت بھی سندھ میں پنجاب حکومت کی تقلید کرتی نظر آرہی ہے اورلوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، مہنگائی، تعلیمی زبوں حالی جیسے بنیادی عوامی مسائل کی بجائے صرف سڑکوں اور گرین لائن منصوبوں پر ہی زور دے رہی ہے گویا حکومت کی ترجیحات صرف وہی کام ہیں جو دکھاوے پر مبنی ہیںاور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ہم اپنی تعلیم جیسی میراث سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے،جامع، مثبت اور ٹھوس پالیسیوں سے تمام مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سندھ کے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کے حل میں دلچسپی لے اور اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو تلاش کرکے ان کا قلعہ قمعہ کرے جو تعلیم کے بجٹ کو ذاتی تجوریاں بھرنے میں استعمال کرتے ہوئے ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہیں، سندھی حکومت کو اپنی گڑیا آپ سنوارنی پڑے گی، آخر میں نوجوان شاعر بہنام احمد کا شعر کہ۔
صبح خیزی کو شب ضروری ہے
کاش ہم لوگ یہ سمجھ سکتے
تحریر : فیصل اظفر علوی
0300-5148064