تین روز پہلے ختم ہونے والے سال 2016 کے حوالے سے محکمہ صحت سندھ کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو صورتحال بہت مایوس کن نظرآتی ہے ۔
سات سال بعد شہید بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر فعال ہوا لیکن صرف ایمرجنسی اور ابتدائی تین فلور،اسی طرح جاپان کی امداد سے بنایا گیا سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی بھی دو سال بعد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت فعال ہوا۔
جناح اسپتال میں انتظامی امور عدالتی فیصلوں سے متاثر رہے۔سول ،عباسی ،سوبھراج ،قطر اسپتال یا پھر ایف بی ایریا 16 نمبر ہو یا شاہراہ فیصل پر واقعہ ادارہ امراض قلب مریضوں سے تو بھرے رہے لیکن ادویات سے محروم رہے۔
محکمہ صحت نے جرمن حکومت کے اشتراک سے بنائے گئے ریجنل بلڈ بینک فعال کئے نہ ہی نیپاچورنگی پر سندھ گورنمنٹ اسپتال کو مکمل کیا۔اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی بھی سارا سال رہی ۔
یہی نہیں صوبے میں چلنے والے ملیریا، ڈینگی،ایڈز،ہیپاٹئٹس کنٹرول کے پروگرامز بھی صرف اپنے اپنے سالانہ آگاہی کے دن پر ہی متحرک نظر آئے جس سے ان پروگرامز کے سربراہان ،عملے اور محکمہ صحت کی سست روی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔