چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے فوری بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایگزیکٹ مقدمات کا15 دن میں فیصلہ کیا جائے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو تین ہفتوں میں ایگزیکٹ کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے شعیب شیخ اور دیگر ملزمان کی ملک سےباہر نہ جانے کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کا حکم واپس لے لیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ 3 ہفتوں میں ایگزیکٹ کیس کا فیصلہ کرے، ملزمان تعاون نہیں کرتے تواستغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے، ٹرائل کورٹ 2ہفتوں میں ضمانت منسوخی کافیصلہ کرے، انہوں نے کہا کہ یہ میرے ملک کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے، اپنی قوم کوشرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3رکنی بینچ ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کاحکم دےدیا تاہم شعیب شیخ اور دیگر ملزمان کی ملک سے باہر نہ جانے کی یقین دہانی پر حکم واپس لے لیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرالتوا کیوں ہیں؟ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے فوری بینچ تشکیل دینے اور ایگزیکٹ مقدمات کا15دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے بشیرمیمن نےکہا کہ کسی یونیوسٹی کاایگزیکٹ سے الحاق نہیں تھا، یونیورسٹیوں کا صرف ویب پیج تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کیمپس نہیں تو کلاس رومز بھی نہیں ہوں گے۔ ڈی جی ایف آئی بشیرمیمن نے بتایا کہ ایگزیکٹ سےڈگری1گھنٹے میں مل جاتی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے یہاں بھی ورچوئل یونیورسٹی ہے،کیاورچوئل یونیورسٹی کوئی پروگرام کنڈکٹ بھی کرتی تھی؟
ڈی جی ایف نے بتایا کہ 5ہزار ڈالرز میں ایگزیکٹ ڈگری مل جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرالتوا کیوں ہیں؟سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے فوری بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ ایگزیکٹ مقدمات کا15دن میں فیصلہ دے۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ تجربہ پر ایگزیکٹ والی ڈگری مل جاتی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرا قانون کا تجربہ ہے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟ بشیر میمن نے کہا کہ تجربہ کی بنیاد پر آپکو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری انگلش اتنی اچھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام 2006 سے ہورہا ہے، 2006 سے 2015 تک یہ کاروبار ہوتا رہا، اگر یہ درست ہے تو لوگوں سے فراڈ ہوا، جب میڈیا میں خبریں آئیں تو ایف آئی اے نے معاملات کو دیکھنا شروع کیا، اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کرسکتا ہے؟
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہوچکے ہیں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے نے ثبوت پیش کیے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے۔